سورۂ فاتحہ کی فضیلت ۔۔۔۔۔از: مولانا محمد ساجد حسن سہارنپوری استاذ تفسیر جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ.
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام عالم کا رب ہے۔بہت بخشش کرنے وا لا ،بڑا مہربان، روزِ جزا کا مالک ہے ، ہم تیری ہی
عبا دت کر تے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چا ہتے ہیں،ہم کو سیدھے راستے پر چلا ،یعنی ان لو گو ں کے را ستے پر جن پر تونے خاص انعام کیا اور جو غضبِ خدا وندی اور گمرا ہی سے سالم و محفوظ رہے۔

تشریح و توضیح:
اس سورت شریفہ کے متعددنام ہیں،کسی بھی چیز کے ابتدائی حصے،ابتدائی حالت ،شروعاتی دَورکوفاتحہ بھی کہتے ہیں اورکیونکہ قرآن کریم کی شروعات اورآغازاِسی سورت سے ہوتاہے اِس لیے اس کوفاتحۃ الکتاب بھی کہاجاتاہے اور کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ایک دُعاء(طلب ہدایت)اوراس دُعاءسے پہلے، دُعاءمانگنے کاطریقہ سکھایاہے ،اِس لیے اِس سورت کاایک نام تعلیم المسئلہ بھی ہے،اورطریقۂ دُعاءیہ بتا یاکہ اولاً اللہ تعالی کی حمد وثنا اور اس کی تعریف و توصیف کی جائے ،تعریف کے الفاظ بھی خود تلقین فرمائے جیساکہ سرکاری ،نیم سرکاری، معتبرومستند اداروں میں درخواستیں دینے کے لیے مطبوع درخواستیں بھی دستیاب کرائی جاتی ہیں۔
تعریف اللہ کے لیے ہے،بلکہ سب تعریفوں کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اس دنیامیں کسی کی تعریف عموماتین وجہ سے کی جاتی ہے:
(۱)جس کی ہم تعریف کررہے ہیں وہ خود صاحبِ فضل وکمال اور بذاتِ خودحسن وخوبی کے ساتھ متصف ہے
(۲)تعریف اس لیےکرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کسی نے احسان کابرتاؤکیا ،تواعترافِ نعمت اورجذبۂ تشکر وامتنان سے مغلوب ہوکر ہم اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں۔
(۳)کسی سے کوئی مطلب حاصل کرناہے، تو حصولِ مطلب اورمقصد برآر ی کے لیے ہم کسی کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔۔۔اوراللہ تعالیٰ ان سب اسباب ووجوہات کی بناپرقابل تعریف ہے،بلکہ اُن اسباب ووجوہات کی بناپربھی، جوہمارے وہم وگمان اورپروازِتخیل سے بھی ماوراء ہیں۔
رب العا لمین :
اورتعریف کے لئے لفظ’’ اللہ‘‘ کے بعد سب سے پہلی صفت ’’رب ‘‘ذکر کی گئی، جس کے معنی مالک، سردار،پرورش کرنے والا،عدم سے وجودبخشنے والا،اللہ کی جناب میں سب ہی مرادہوسکتے ہیں۔رب العٰلمین پہلی صفت ہے جو الحمد للہ کے لئے بمنزلہ دلیل کے ہے کہ سب تعریفوں کا مستحق اس لئے ہے کیونکہ اس نے ،نیست سے ہست کیا،معدوم سے موجودکیا اور وجودبھی کامل،اوراس ظاہری جسم کوآفات سے بچانے کے لئے جتنی چیزیں ضروری تھیں وہ سب عطاکیں۔۔۔۔۔بغیرطلب کے عطاکیں۔۔۔۔۔۔اس لئے وہ تعریف کامستحق ہے۔۔۔۔۔دیکھنے کے لئے آنکھ اس نے دی،تو تعریف کامستحق وہی ہے،سننے کے لئے کان اس نے دئے تو تعریف کامستحق وہی ہے، بولنے کوزبان اس نے دی،اورہاتھوں میں اورانگلیوں میں گرفت اس نے رکھی تو تعریف کامستحق وہی ہے،اورپرورش کے لئے ایساغیبی نظام جاری کررکھاہے،کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے،جب بچہ پیداہوتاہے تواس کامعدہ روٹی،بوٹی،غلہ واناج، ساگ وسبزی کامتحمل نہیں ہوتا، اس لئے ماں کے پستان سے دودھ کی نہرجاری کردی،اوردودھ کے پتلاگاڑھاہونے میں بھی یکسانیت نہیں رکھی کہ پیدائش کے دن سے دوسال تک دودھ کی دھاربرابررہتی ہو،بلکہ ماں کے دودھ کے رقیق وغلیظ ،گاڑھاو پتلاہونے میں نمایاں فرق ہوتاہے،جس دن بچہ پیداہوتاہے اس دن اس کا معدہ گاڑھے دودھ کابھی متحمل نہیں ہوتا،اس لئے رب نے اپنے غیبی نظام کے تحت یہ نظم کیاہے،کہ شروع میں ماں کادودھ پتلا،بلکہ بہت زیادہ پتلا،پانی کے مانند ہوتاہے،اورماں کے دودھ میں وہ تمام قوتیں، وٹامنز،ودیعت فرمادئے جن کی بدن کوضرورت ہوتی ہے،اوربچہ کی عمرکے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دودھ بھی گاڑھاہوتاچلاجاتاہے،تربیت کایہ حسین انداز،اورضرورت کی تکمیل کا جوایسانظم جاری کرسکے بس وہی مستحق تعریف ہے۔۔۔۔۔بچہ کے ساتھ ،بچہ کی ماں ،اورہرچیزکی ضرورت کی تکمیل ،سردی میں گاجر جیسی گرم غذا اورگرمی میں خربوزہ ،تربوز،کھیرے ککڑے جیسی سردغذا، تومستحق حمد وہی ہے،اورمخلوق کویہ سب چیزیں عطاکرناکسی سے ڈرکریادب کرنہیں،کسی کے احسان یامکافات میں نہیں، بلکہ محض اپنی رافت ورحمت کی بناپر۔
اسی وہم کوختم کرنے کے لئے اگلے والے دوصیغے ،دوصفتیں اوربڑھائیں۔
رحمٰن و رحیم:
یہ رحمت سے مشتق ہیں،اور دو نو ں مبا لغے کے صیغے ہیں، جس کے معنٰی بہت زیادہ رحمت کر نے والے ، مگر بقول علا مہ آلو سی دو نو ں میں فرق ہے: کہ رحمٰن سے عام رحمت مراد ہے ،خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، ظاہراً وبا طنا دونوں طرح نعمت ہو،یا صرف باطناً نعمت اور صورت و ظاہر کے اعتبار سے عذاب ہو ، مثلاً دنیوی مصائب ،بظاہرتکلیف ودشواریوں کاسبب ہوتی ہیں،مگرمصائب کیونکہ تضرع وعاجزی،توجہ، انابت الی اللہ کاذریعہ بنتی ہیں اس لئے وہ بھی یقیناًنعمت ہی ہیں، جیسے بیمارکوزبردستی دواپلانا، یہ بظاہربیمارکے لئے ایلام وایذاہے اور تکلیف دہ ہے، مگربباطن ودرپردہ، یہ ایذا،بیمارکے لئے سراسرخیرہی ہے۔۔۔۔۔تویہاں اس کی رحمت کبھی راحت وانعام کی شکل میں ظاہرہوتی ہے، کبھی مصائب وآلام کی شکل میں اوریہ نعمتیں مؤمن وکافرسب کے ساتھ عام ہیں۔
اور’’رحیم‘‘ سے وہ رحمت مرادہے جس میں کسی کاواسطہ نہ ہو، اورظاہراًوباطناًہرطرح راحت ونعمت ہی ہو،جیسے دارِآخرت میں ملنے والی نعمتیں،ساری اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی اور بصورت راحت وانعام ہی ہوں گی۔
اور رحمن رحیم کاتکرار اس وجہ سے ہے کیونکہ اس کی رحمتیں مکررہیں ،،،،،مگراس باربارکی رحمت سے کسی کوغرہ نہ ہوجائے،اورشیطان یہ پٹی نہ پڑھادے’’کہ اجی! وہ توغفوررحیم ہے جتنے چاہے گناہ کرلو‘‘ اس لیے فرمایا:
مالک یوم الدین:
ما لک یوم الدین کہہ کر بتادیا کہ نیکی بدی، نا فرمانی وفرمانبرداری، موافق ومخالف میں فرق کرناضروری ہے،اسی لئے ہم نے’’مکافات عمل‘‘کاقانون مقرر کر رکھاہے،اوراس دنیامیں تو فیصلے،قدرت اوراختیارہم نے اپنی مشیت ومرضی سے بظاہر تمہارے جیسے کچھ لوگوں کوبھی دے رکھے ہیں،مگراس دن ظاہری اختیارات بھی سمٹ کراسی کے ہاتھ میں آجائیں گے،کیونکہ وہاں کے اختیارات سب اسی کے لئے مخصوص ہیں۔(والی اللہ ترجع الأمور)
عقیدۂ آخرت، عقلی اعتبارسے بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اگرکوئی آدمی باغ لگائے اورپھل آنے پراس کے پھل نہ توڑے تویہ اس پھل کوضائع کرناہی ہے ،نیزخود کواوردوسروں کو اس کے منافع سے محروم کرناہے۔۔۔۔۔۔اگرکھیتی بوئی ہے توپکنے پردرانتی سے کاٹنابھی ضروری ہے، تودنیا جو دارالعمل ہے اس کے بعددارالجزاء کا ہونا بھی ضروری ہے ۔
ایاک نعبد:
یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں‘‘:حاضرانہ طرزِکلام اختیارکیاگیااور یہ کہا گیا کہ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘کیونکہ تعریف کرتے کرتے بندہ درجۂ شہودکو پہنچ گیا،اورپہلے کلام میں غائبانہ طرزکلام اس لئے اختیارکیاگیاتھاکیونکہ تعریف غائبانہ ہی اچھی ہوتی ہے،نعبدمیں عبادت کاتذکرہ ہے جس کے معنی تذلل اورعاجزی کے ہیں پہلے کلام میں اللہ کی عظمت وخوبی کاتذکرہ تھااب اس کلام میں اپنے تذلل وعجزکاتذکرہ ،اوریہ عبادت بھی آپ کی توفیق و استعانت کے بغیر ممکن نہیں ۔سبحان اللہ! کس قدرخوب تعلیم ہے۔
اھدناالصراط المستقیم:
دعا کا طریقہ بتانے کے بعداب اس جملہ میں بندہ کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس ذات عالی سے آپ صراط مستقیم کی ہدایت طلب کریں۔
صراط کے معنی راستہ اورمستقیم کے معنی سیدھا،طریقے صحیح بھی ہوتے ہیں غلط بھی۔۔۔۔اچھے بھی ہوتے ہیں برے بھی۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں جتنی چیزیں مطلوب ہیں مثلااخلاق،معاملات،اعمال،اعتقادات سب میں جوافضل واحسن طریقہ ہے اس پرگامزن فرما!کہ میرے عادات واطواربھی صحیح ہوں،میرے معاملات بھی سب کے ساتھ صحیح ہوں،سب کے ساتھ برتاؤ اورسلوک بھی اچھاہو،اے میرے مولیٰ میراعقیدہ بھی ٹھیک ہواوراعمال میں بھی وہ طریقہ تعلیم فرماجوتیری رضاوخوشنودی کاذریعہ بنے، سبحان اللہ کیسی خوب اورجامع دعاتلقین فرمائی۔
بعض مفسرین نے صراط مستقیم کی تفسیر اسلام وایمان سے بھی کی ہے،توچونکہ بہت سے گمراہ ، بدعقیدہ اورسزایافتہ گناہ گاروں کے گروہ بھی صراط مستقیم پرہونے کادعویٰ کرسکتے ہیں اس لئے اگلے جملہ ’’غیر المغضوب۔۔۔۔۔۔‘‘میں وضاحت کردی گئی کہ تم اس کا مصداق نہیں، اس کا مصداق توحضرات انبیاء کرام کی جماعت ہے،اوردعاکے خاتمہ پرکیونکہ آمین کہنامستحب ہے اس لئے آمین کہنا چاہئے ۔(اس سورہ کے فضائل و برکات کا تذکرہ انشاء اللہ اگلے ماہ پیش کیا جائے گا۔)

Back to Conversion Tool

Website Hosting | Back to Home Page
 
Top