سورہ بقرہ آیت نمبر 216

علی عمران

محفلین
ترجمہ آیت216:
تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمھیں نا گوارہے اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا گوار سمجھواور وہ تمھارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لئے مضر ہو اور اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
معارف الجہاد:
جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ مسلمانوں پر فرض ہے ۔ چونکہ یہ فریضہ مشکل ہے اس لئے نفس کو طبعی طور پر گراں اور بھاری معلوم ہوتا ہے ........مگر اللہ تعالیٰ نے اسمیں خیر ہی خیر رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے کہ کس چیز میں خیر ہے اور کس میں شر۔
امام رازی ؒکی تقریر عجیب:
و معنی الآیۃ انّہ رُبَما کان الشی ¿ شاقا علیکم فی الحال الخ
آیت کا معنی یہ ہے کہ بسا اوقات کوئی چیز تمھیں” حال“ میں بھاری اور شاق معلوم ہوتی ہے حالانکہ وہ” مستقبل “میں بہت عالیشان فوائد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کڑوی دوا پینا ایک اچھا کام ہے کیونکہ مستقبل میں اس سے صحت ملنے کی توقع ہوتی ہے، تجارتی سفر کے خطرات کو برداشت کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں نفع ملنے کی امید ہوتی ہے ،علم حاصل کرنے کی مشقت برداشت کرنا اچھا ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں دنیا و آخرت کی عظیم سعادتیں نصیب ہوتی ہیں ، اس آیت میں بالکل یہی منظر ہے اور وہ اس طرح کہ جہاد کے چھوڑنے میں فی الحال یہ فائدہ نظر آتاہے کہ جان خطرے میں نہیں پڑتی اور مال خرچ ہونے سے بچ جاتا ہے مگر آگے چل کر اسمیں بہت سارے نقصانات ہیں مثلاً دشمن کو جب پتا چلے گا کہ تم لوگ عیش و سکون کی رغبت میں پڑ گئے ہو تو وہ تمھارے شہروں پر حملے کرے گا اور تمھیں ختم کرنے کی کوشش کرے گا پھر یا تو تم پر غالب آ کر تمھارا خون بہائے گا اور تمھارے اموال چھین لے گا ۔یا تم مجبوراً بغیر تیاری اور سامان کے اسکا مقابلہ کرو گے یہ ایسا ہی ہو گا جسطرح کوئی شخص مر ض کی ابتداءمیں صرف کڑوی دوا سے بچنے کیلئے اسکا علاج نہ کرے اور پھر وہ مرض اتنا بڑھ جائے کہ اُسے کڑوی دوا پینے سے کئی گنا زیادہ تکلیف اور مشقت اٹھانی پڑے ، حاصل کلام یہ ہے کہ قتال فی سبیل اللہ امن پانے کا ذریعہ ہے اور یہ وقتی سلامتی کے مزے لوٹنے سے بہت بہتر ہے ، اس کے چند ایک فائدے یہ ہیں (۱)مال غنیمت کا ملنا (۲)دشمنوں پر غلبے کی عظیم الشان خوشی کا ملنا اور اس کے دینی فائدے تو بہت زیادہ ہیں مثلاً(۱)اگر جہاد کو عبادت سمجھ کرخالص اللہ تعالیٰ کیلئے کیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اسکو خراب کردے تو یہ بہت بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے (۲)جہاد کی وجہ سے تمھارا دشمن اس بات سے ڈرے گا کہ تم پر حملہ کرے یوں تم تکلیف اٹھانے اور مرتد ہونے سے بچ جاﺅ گے (۳)دشمن جب تمھیں جہاد کرتا دیکھے گا کہ تم اپنے دین کو کتنا اونچا سمجھتے ہو اور کس طرح سے اُسکی خاطر اپنی جان و مال کو لٹاتے ہو تو اس کے دل میں تمھارے دین کی عظمت آئے گی اور وہ تمھارے دین کی طرف مائل ہو گا اور مسلمان ہو جائے گا ....تو اس پر تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کے مستحق قرار پاﺅ گے (۴)جب تک کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا یقین نہ ہو اور اس بات کا یقین نہ ہو کہ دنیا کی لذتیں فانی اور باطل ہیںاس وقت تک وہ اپنے آپ کو میدان جہاد میں شہادت کیلئے پیش نہیںکرتا پس جس شخص نے خود کو اللہ تعالیٰ کی رضا ءکیلئے میدان جہاد میں شہادت کیلئے پیش کردیا تو یہ شخص یقین کے اس (اعلیٰ)درجے پر فائزہے اور یہی ایک انسان کیلئے سب سے بڑی سعادت ہے۔ پس ہماری اس تقریر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ کے دشمنوں سے قتال کرنا اگرچہ طبیعت پر بھاری معلوم ہوتا ہے مگر اس میں بہت زیادہ خیر ہے ۔( التفسیر الکبیر )
اقوال و حوالے
مستند مفسرین حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اسمیں سے کچھ اقوال اورحوالے ملاحظہ فرمائیے ۔
(۱)کتب علیکم القتال تم پر قتال فی سبیل اللہ فرض کر دیا گیا ہے
ای قتال الکفار و ھو فرض عین ان دخلوا بلادنا و فرض کفایۃ ان کانوا ببلادھم یعنی کافروں سے لڑنا اور یہ فرض عین ہے اگروہ کافر ہمارے شہروں میں داخل ہو جائیں اورفرض کفایہ ہے اگر وہ اپنے شہروںمیں ہوں ( روح المعانی)
(۲)و ھذا ایجاب من اللہ تعالیٰ للجہاد علی المسلمین ان یکفُّوا شرا لا ¿عداءعن حوزۃ الا سلام و قال الزھری الجہاد واجب علی کل احد غزاا ¿و قعد ، فالقاعدعلیہ اذا استُعِین ا ¿ن یعین و اذا استغیث ان یغیث و اذااستنفران ینفروان لم یحتج الیہ قعد و قلت و لھذا ثبت فی الصحیح من مات و لم یغز و لم یحدث بہ نفسہ بالغزو مات میتۃ جاھلیہ
یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا جارہا ہے کہ وہ دین اسلام سے دشمنوں کے شرکودور کریں اور امام زہریؒ فرماتے ہیں جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ لڑائی میں مصروف ہو یا گھر بیٹھا ہو گھر بیٹھنے والے پر اس طرح فرض ہے کہ جب اسے جہاد میں تعاون کیلئے بلایا جائے تو وہ تعاون کرے جب اس سے مدد کی فریاد کی جائے تو فوراً مدد کو پہنچے اور جب مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر اسے جہاد میں نکلنے کے لئے کہے تو فورا ًنکل کھڑا ہو اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو گھر بیٹھا رہے میں کہتا ہوں کہ اسی لئے حدیث صحیح میں آیا ہے ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ) جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے اللہ کے راستے میں لڑائی کی اور نہ اس کے دل میں اسکا شوق ابھرا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔( تفسیر ابن کثیر)
(۳)فقال قوم انہا تقتضی وجوب القتال علی الکل و عن مکحول انہ کان یحلف عند البیت باللہ ا ¿ن الغزو واجب
یعنی ایک جماعت کا کہناہے کہ یہ آیت سب مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ثابت کرتی ہے مکحول ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ جہاد فرض ہے ( التفسیر الکبیر)
(۴)کتب فُرِضَ علیکم القتال للکفار
کُتِبَ یعنی تم پر فرض کیا گیا ہے القتال للکفار کافروں سے قتال کرنا ۔ ( تفسیر جلالین)
(۵)وظاہرقولہ کتب انہ فرض علی الا ¿عیان کقولہ کتب علیکم الصیام و کتب علیکم القصاص ان الصلوٰۃعلی المومنین کتاباً موقوتاًوبہ قال عطاءقال فرض القتال علیٰ ا ¿عیان اصحاب محمد ﷺ فلما استقرالشرع و قیم بہ صار علی الکفایۃ یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کتب سے ظاہری طور پر جہاد کا فرض عین ہونا معلوم ہوتا ہے جیسے کتب علیکم الصیام وغیرہ آیات میں ہے اور یہی عطا ؒکا مسلک ہے کہ قتال حضور اکرم ﷺ کے صحابہ پر فرض عین تھا پھر جب شریعت اسلام کو قوت مل گئی اور وہ قائم ہو گئی تو جہاد فرض کفایہ ہو گیا (تفسیر البحرالمحیط )
اس کے بعد علامہ ابو حیان ؒلکھتے ہیں
ثم استقرالاجماع علیٰ انہ فرض کفایۃ الی ا ¿َن نزل بساحۃ الاسلام فیکون فرض عین یعنی اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے یہاں تک کہ اسلامی علاقوں تک دشمن پہنچ جائے تب یہ فرض عین ہو جاتا ہے ( البحرالمحیط)
(۶)ھذا ھو فرض الجھاد بین سبحانہ ا ¿َنّ ھذا مما ا ¿ُمتُحِنوابہ و جعل و صلۃ الی الجنۃ و المراد با لقتال قتال الا ¿عداءمن الکفار ( القرطبی)
یعنی یہ ہے وہ فریضہ جہاد جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے مسلمانوں ( کے ایمان ) کا امتحان لیا گیا اور اس جہاد کو جنت تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔ اور القتال سے مراد کافر دشمنوں سے جنگ کرنا ہے ۔
(۷)وقال سعید بن المسیب انّ الجہاد فرض علیٰ کل مسلم فی عینہ ا ¿بدا حکاہ المارودیّ قال ابن عطیہ : والذی استمرّعلیہ الا جماع انَّ الجھاد علیٰ کلّ اُ مَّۃ محمدﷺ فرض کفایۃ( تفسیر الامام القرطبی)
یعنی حضرت سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں کہ جہاد ہمیشہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے یہ قول مارودیؒ نے ذکر کیا ہے ، ابن عطیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اجماع چلا آتا ہے کہ جہاد امت محمد ﷺ کے لئے فرض کفایہ ہے ۔
(۸)جہاد فرض ہے جبکہ اس کے شرائط پائے جاویں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور فرض دو طرح کا ہوتا ہے فرض عین اور فرض کفایہ سو اعداءدین جب مسلمانوں پرچڑھ آویں تب فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ ( بیان القرآن)
(۹)یعنی دین کے دشمنوں سے لڑنا فرض ہوا فائدہ جب تک آپ ﷺ مکہ میں رہے آپ ﷺ کو مقاتلہ کی اجازت نہ ہوئی جب مدینہ کو ہجرت فرمائی تو مقاتلہ کی اجازت ہوئی مگر صرف ان کفار سے جو خود اہل اسلام سے مقاتلہ کریںاس کے بعد علی العموم کفار سے مقاتلہ کی اجازت ہو گئی اور جہاد فرض ہوا ( تفسیر عثمانی)
(۰۱)سوال پیدا ہوا تھا کہ جہاد کا حکم کب تک رہے گا اس کا جوا ب ہے کہ امن تمھارے لئے مضر نتائج پیدا کرے گا اس لئے جہاد کا حکم دوامی ہے .... حیلہ ساز آدمی اگر جہاد سے بچنے کا حیلہ سوچنا چاہیں تو ان کیلئے جواب ہے کہ قتال سب کیلئے اور ہمیشہ کے لئے لازم ہے اگرچہ امن پھیلانا ضروری ہے لیکن اگر قتال کیلئے ہمیشہ تیار نہیں رہو گے تو بدنظمی پھیلے گی۔( حاشیہ حضرت لاہور یؒ)
(۱۱)جب تیاریاں اس زور شور سے ہوں تو خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کب تک جاری رہے گی اور یہ قتل و قتال کب ختم ہو گا ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ لڑنے بھڑنے میں تکلیف تو ضرور ہوتی ہے ، بال بچوں سے دور رہنا پڑتا ہے اور چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا مگر یاد رہے کہ جس چیز کوتم اپنی کوتاہ بینی سے باعث تکلیف خیال کررہے ہو ،وہی تمھارے لئے خیر و برکت کا سبب ہے اس لئے کہ تم زندہ رہو گے ، اور تمھاری قوم کو دائمی زندگی نصیب ہوگی ، آرام طلبی اور عیش پرستی بظاہر دلفریب ہیں مگر ان کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں اللہ جانتا ہے کہ تمھاری انفرادی و اجتماعی حیات کا راز اسی میں پوشیدہ ہے ، سورہ انفال میں اسکی نسبت فرمایا یاایھاالذین امنو استجیبوا للہ و للرسول اذا دعا کم لمایحییکم (الانفال ۴۲) ترجمہ : اے ایمان والو اللہ اور رسول کا حکم مانو جس وقت تمھیں اس کام کی طرف بلائے جسمیں تمھاری زندگی ہے ( تفسیر الفرقان)

دعاء
یا اوّلُ یا آخِرُ حُب ّ دنیا سے ہماری حفاظت فرما اور ہمیں فکر آخرت نصیب فرما،( آمین یارب العالمین)
www.alqalamonline.com
 
Top