سورج ڈوب گیا

سورج ڈوب گیا!(گزشتہ سے پیوستہ),,,روزن دیوار سے عطاء الحق قاسمی


میں ندیم صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے چالیس برسوں پر محیط لمحات پر نظر دوڑاتا ہوں تومیرے تخیل میں ایک مسکراتا ہو ا چہرہ ابھرتا ہے میں نے انہیں دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تودیکھا لیکن اپنی کسی پریشانی اپنے احباب کو منتقل کرتے ہوئے کبھی نہیں پایا ۔ وہ ہم جوانوں ( جی ہاں اس وقت ہم جوان تھے) کے ساتھ جوان بن جاتے تھے اور ہمارے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے کہ لگتاہی نہیں تھا کہ برصغیر کا اتنا بڑا افسانہ نگار، اتنا بڑا شاعر اور اتنا بڑا کالم نگار ہمارے درمیان بیٹھا ہے، کسی زمانے میں ان کا کالم ”حرف و حکایت“ شگفتگی اور بذلہ سنجی کے حوالے سے ایک ریفرنس کی حیثیت رکھتا تھا، بعد میں انہوں نے اپنے اسلوب سے ہٹ کر کالم لکھے جن کی ریڈر شپ اگرچہ بہت زیادہ تھی لیکن میں ان کے ”حرف و حکایت“ ہی کا دلدادہ تھا، تاہم ان کایہ شگفتہ انداز احباب کی محفل میں اپنی عمر کے 90ویں سال تک برقراررہا۔ ایک دن خالد احمد کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ تمہاری طبیعت میں جلد بازی اتنی ہے کہ: کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا والے میرے شعرکامضمون اگر تم باندھتے تو تم نے کہنا تھا: کون کہتا ہے کہ مر جاؤں گا میں سمندر میں اتر جاؤں گا انہوں نے احباب کی محفل میں ایک واقعہ بیان کیا جو بیمار انا کا کوئی ادیب کبھی کسی کو نہیں سنا سکتا تھا۔ کہنے لگے کہ میں ایک دور دراز گاؤں میں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گیا، وہاں دیہاتی کثیر تعداد میں جمع تھے، اچانک ایک دیہاتی نے ندیم صاحب کی طرف اشارہ کیا اور اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا ”انہیں پہچانتے ہو؟“ سب نے نفی میں سر ہلایا اس پر اس بزرگ نے تاسف سے ہاتھ ملے او ر ان کو جھاڑ پلائی ”تم رہے نا ان پڑھ کے ان پڑھ، بھئی یہ عطا الحق قاسمی صاحب ہیں!“ اس کے برعکس جب ایوب خاور نے ندیم صاحب کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کا سلسلہ ٹی وی پر ”قاسمی ڈرامے“ کے عنوان سے شروع کیا تو بہت سے ناواقف لوگ ان ڈراموں کو میری تحریر سمجھتے ہوئے مجھے آکر داد دیتے تھے اور میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کورنش بجا لاتا تھا، میں نے ندیم صاحب کو اپنی اس ”واردات“ سے آگاہ کیا تو وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہا تمہیں اس واردات کی آئندہ کے لئے بھی اجازت ہے۔ ندیم صاحب ہمیں اپنی جیل کے دنوں کے واقعات بھی بہت دلچسپ انداز میں سنایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایک دفعہ ان کے جیل کے ایک ساتھی کے کسی عزیز نے ساگ کی لیک بہت بڑی گٹھڑی بھیجی، جب اسے پکانے کے لئے ایک بڑے پتیلے میں ڈال دیا گیا تو وہ سکڑ کر تھوڑا سا رہ گیا، اس پرحسن عابدی مرحوم نے کہا ”یہ ساگ دیکھنے میں کتنا زیادہ تھا، مگر اس کی اصل فلاں نقاد کے مقالے کی طرح ہے جس میں کام کی بات بس اتنی ہی ہوتی ہے“ ندیم صاحب نے ”امروز“ کی ادارت کے دوران ایک شخص کو ادارے میں سب ایڈیٹر کی ملازمت دی ۔ جیل کے دنوں میں انہیں پتہ چلا کہ اس کا تعلق ایک خفیہ ایجنسی سے تھا، انہوں نے واپسی پر اسے ملازمت سے برطرف کر دیا مگر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب و ہ اگلے ہی دن دوبارہ نیوز روم میں بیٹھا خبریں ایڈٹ کررہا تھا یہ واقعہ سنتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں ایجنسیاں پہلے دن سے ہی اتنی طاقتور ہیں کہ ان کے کسی فرد کی اصلیت سے آگاہی کے بعد بھی اس پرہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ شعرو ادب میں بے پناہ کنٹری بیوشن کے علاو ہ ندیم صاحب کی ایک بہت بڑی کنٹری بیوشن نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی پروجیکشن کے حوالے سے بھی ہے جو انہوں نے اپنے جریدے ”فنون“ کے ذریعے کی۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کالم میں اس کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ اس وقت شاعری اور افسانے میں جتنے بڑے یا کم بڑے نام نظر آتے ہیں، ان کی بہت بڑی اکثریت ”فنون“ کے ذریعے سامنے آئی یا فنون سے وابستہ رہی ان میں احمد فراز، منیر نیازی، ظفر اقبال، پروین شاکر، احمد مشتاق، شہزاد احمد، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، محمود شام، امجد اسلام امجد، عدیم ہاشمی، محمد خالد اختر، محسن احسان، خالد احمد، نجیب احمد، قتیل شفائی، ریاض مجید، خاطر غزنوی، فضل احسن رندھاوا، جمیل الدین عالی، افتخار نسیم، عشرت آفرین، اطہر نفیس، احمد راہی، عبیداللہ علیم، شاہدہ حسن، جمال رحمانی، ثروت حسین، غلام محمد قاصر، منصورہ احمد، فاطمہ، حسن محبوب خزاں، ہاجرہ مسرور، شریف کنجاہی، خدیجہ مستور، عطیہ سید، شفیق سلیمی، رشید ملک، جلیل عالی، یوسف حسن، نیلو فر اقبال، جاوید شاہین، افضل توصیف، ساقی فاروقی، محمد منشا یاد، انعام الحق جاوید، پروفیسر فتح محمد ملک، آفتاب اقبال شمیم احمد شمیم، سرمد چغتائی ، ڈاکٹر اجمل نیازی، شمس الرحمن فاروقی، محمد کاظم، انور محمود خالد، مستنصر حسین تارڑ، اختر حسین جعفری، محشر بدایونی، جاوید اشرف، اسلم کولسری، اسلم انصاری، انوار احمد، سہیل احمد خان اور دوسرے بیسیوں بڑے نام شامل ہیں تاہم ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن پر یہ قول صادق آتا ہے کہ ”حضرت عیسیٰ  جن مُردوں کو زندہ کرتے تھے، وہ بعدمیں ان کے بیری ہوجاتے تھے“۔ سوہمارے درمیان سے وہ شخص اٹھ گیا ہے جو ادب سے وابستہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تھا۔ اس وقت بھی ادب کے منظرنامے پر ایسے بہت سے ادیب موجود ہیں جن کے لئے دلوں میں بے پناہ احترام پایا جاتا ہے مگر احترام کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طرح کا انس، اپنائیت او ر محبت جو ندیم صاحب کے لئے دلوں میں تھی، اس کی مثال بہت کم کم ہے، مجھے ہیوسٹن میں عشرت آفرین کا فون آیا، فون پر روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی، وہ ایک ہی بات کہے جا رہی تھی ”ہم یتیم ہو گئے، ہم یتیم ہوگئے“ لاس اینجلس سے خالد خواجہ نے فون کیا اور کہا ”میں دوسری دفعہ یتیم ہو گیا ہوں“ اور یہ ماتمی فضا اس وقت صرف پاکستان کے چاروں صوبوں میں نہیں بلکہ پوری دنیامیں جہاں جہاں اردو موجود ہے، اس فضا نے ماحول کو سوگوار کیا ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے بے شمار لوگوں کی طرح میرا دکھ بھی یہ ہے کہ میں ان کے چہرے کی آخری مسکراہٹ نہیں دیکھ سکا مگر مجھے اطمینان ہے کہ سورج ڈوبا نہیں کرتے۔ ہماری نظروں سے صرف تھوڑی دیرکے لئے اوجھل ہوتے ہیں۔ندیم کا سورج بھی ڈوبا نہیں ہے، اس کی کرنیں ہمارے دلوں کوہمیشہ روشن اور سرسبز و شاداب رکھیں گی۔

روزنامہ جنگ 14 جولائی 2006
 
Top