سوانح عمری فردوسی صفحہ 16

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
16

2dqtrtf.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نایاب
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-3#post-1539064

فردوسی کا مخلص دوست تھا ۔ اس کو یہ حال معلوم ہوا تو اس نے یہ کتاب لا کر فردوسی کو دی ۔ چنانچہ فردوسی دیباچہ میں لکھتا ہے ،
بہ شہرم یکے مہربان دوست بود
تو گفتی کہ با من بیک پوست بود
مرا گفت خوب آمد این رائے تو
بہ نیکی خر آمد مگر پائے تو
نوشتہ من این نامہ پہلوی
بہ پیش تو آرم مگر نغنوی
شو این نامہ خسروان باز گوے
بدین جوے زد میہمان آبروے
چو آور داین نامہ نزدیک من
برا فروخت این جان تاریک من
فردوسی اگرچہ جیسا کہ نظامی سمرقندی نے لکھا ہے " رئیس زادہ اور خوشحال تھا ۔ تاہم جب اس نے شاہنامہ لکھنا شروع کیا تو علم دوست امرا نے قدر دانی کا اظہار کرنا چاہا لیکن منصور بن محمد نے جو طوس کا حاکم تھا ، ایسی فیاضی کا اظہار کیا کہ فردوسی تمام لوگوں سے بے نیاز ہوگیا ۔
بدین نامہ چون دست کردم دراز
یکے مہترے بود گردن فراز
جوان بود از گوہر پہلوان
خرد مند و بیدار روشن روان
مرا گفت کز من چہ آید ہمے
کہ جانب سخن بر گراید ہمے
بچیزے کہ باشد مرا دست رس
بکو شم نیازت نہ آرم بکس
افسوس کہ منصور چند روز کے بعد مر گیا ۔ فردوسی نے اس کا بہت پر درد مرثیہ لکھا ۔
حسین قتیب ، علی ویلم ، بودلف ، اور فضل ابن احمد کا نام بھی فردوسی کے قدردانوں کی فہرست میں داخل ہے ۔ نظامی سمرقندی نے لکھا ہے کہ " حسین قتیب طوس کا عامل تھا (غالبا منصور کے مرنے کے بعد مقرر ہوا ہوگا ۔)۔ اس نے فردوسی کے دیہات کی مالگزاری معاف کر دی تھی ۔ (1)۔
فضل ابن احمد سلطان محمود کا وزیر تھا ۔ جس کے مرنے کے بعد حسن میمندی اس منصب پر ممتاز ہوا ۔ افضل کا تذکرہ بھی فردوسی نے شاہنامہ میں کیا ہے ۔
(1) ۔۔۔ چہار مقالہ نظامی سمرقندی 12
 
Top