سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا
محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا

بازیگرانِ شہر ِسیاست ہوئے خموش
اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا

کیسی چڑھی ہے دھوپ سرِ شہر ِ بد لحاظ
برگد ہرے بھرے ہوئے سایا نہیں بچا

پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی
پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا

بجھنے لگے چراغ مرے جسم و جان میں
دل میں لہو بقدرِ تمنا نہیں بچا

اک نقشِ لالہ رنگ تو رستے کو مل گیا
بیشک ہمارے پاؤں میں جوتا نہیں بچا

لگتا ہے یوں ، یاواقعی قحط الرجال ہے
لوگوں کے درمیان حوالہ نہیں بچا

اہلِ ہوس کی حاشیہ آرائی سے ظہیر
تاریخ درکنار صحیفہ نہیں بچا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴

ٹیگ: محمد تابش صدیقی سید عاطف علی کاشف اختر فاتح الف عین
فاتح
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
بہت خوبصورت کلام ہے۔ سبحان اللہ!
ایک سخن گسترانہ کہ ردیف "بچا نہیں" کی کوئی خاص ضرورت ہے کیا؟ رواں تر تو "نہیں بچا" ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوبصورت کلام ہے۔ سبحان اللہ!
ایک سخن گسترانہ کہ ردیف "بچا نہیں" کی کوئی خاص ضرورت ہے کیا؟ رواں تر تو "نہیں بچا" ہے۔

فاتح بھائی ، یہ گیارہ سال پرانی غزل ہے۔ ظاہر ہے کے ابتدائی کلام کچھ اور ہوتا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ اسلوب بدلتا ہے اور پختگی بھی آتی ہے۔ میں نے بس یونہی یہ تمام غزلیں کاغذوں سے نقل کرکے ٹائپ کردی ہیں ۔ اب ان کو دیکھنے بیٹھوں تو ہزاروں کمزوریاں نکل آئیں گی اور بہت کچھ بدلنا پڑجائے گا ۔ اس لئے بس سب کو یونہی ٹائپ کردیا ۔ لیکن اب آپ نے توجہ دلائی ہے تو بات واقعی دل کو لگ رہی ہے ۔ میں اس کو دیکھتا ہوں ۔ اس غزل کا ابتدائی شعر "برگد ہرے بھرے ہوئے سایا بچا نہیں" والا شعر تھا اور یہاں مجھے بچا نہیں ،نہیں بچا کی نسبت زیادہ موثر لگا تھا۔ نتیجتََا باقی اشعار نے بھی اسی زمین کی پیروی کی۔ ابھی کچھ گھنٹے تک تدوین کی مہلت ہے ۔ دیکھئے الف عین اور عاطف بھائی کیا کہتے ہیں۔ان کی رائے اور سن لوں۔ اس کے بعد اسے تبدیل کردوں گا ۔ فاتح بھائی، اتنی توجہ اور محبت سے اشعار کو دیکھنے کے لئے میں بہت ممنون ہوں ۔ اللہ کرے زورِ نظر اور زیادہ!
اعجاز عبید سید عاطف علی
 

محمداحمد

لائبریرین
سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا
محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا

بازیگرانِ شہر ِسیاست ہوئے خموش
اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا

پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی
پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا

بجھنے لگے چراغ مرے جسم و جان میں
دل میں لہو بقدرِ تمنا نہیں بچا

اک نقشِ لالہ رنگ تو رستے کو مل گیا
بیشک ہمارے پاؤں میں جوتا نہیں بچا

اتنے دنوں شعر و شاعری سے دور رہا۔ لیکن اِس ایک غزل نے ہی ساری کسر نکال دی۔

ماشاءاللہ ۔ کیا ہی خوب غزل ہے۔ میں تو مطلع پڑھ کر ہی گھوم گیا۔
ایک ایک شعر لاجواب ہے۔

ویسے مجھے ردیف موجودہ کیفیت میں بھی اچھی لگ رہی ہے۔

اس شاندار غزل پر بھرپور داد قبول کیجے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اتنے دنوں شعر و شاعری سے دور رہا۔ لیکن اِس ایک غزل نے ہی ساری کسر نکال دی۔

ماشاءاللہ ۔ کیا ہی خوب غزل ہے۔ میں تو مطلع پڑھ کر ہی گھوم گیا۔
ایک ایک شعر لاجواب ہے۔

ویسے مجھے ردیف موجودہ کیفیت میں بھی اچھی لگ رہی ہے۔

اس شاندار غزل پر بھرپور داد قبول کیجے۔

احمد بھائی ، آپ نے تو سیروں خون بڑھادیا میرا ! یہ سراسر آپ کی اعلیٰ ظرفی اور محبت ہے اور کچھ نہیں !! میں بہت ممنون ہوں ۔ خدا آپ کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھے اور دین ودنیا کی تمام نعمتیں عطا فرمائے ۔
 
Top