سندھی افسانہ کا اردو ترجمہ

یوسف-2

محفلین
مجھے سندھی افسانہ نگار ابراہیم جویو کے افسانہ ”افطاری“ کا اردو ترجمہ درکار ہے، جو شائع ہوچکا ہے۔ اگریہ ترجمہ کسی محفلین کی رسائی میں ہو تو ضرور رہنمائی کرے۔
 

یوسف-2

محفلین
سندھ آزادی کی راہ تک رہا ہے
محمد ابراہیم جویو/ ابو اسامہ تنولی​

90 سالہ ضعیف العمر محمد ابراہیم جویو سندھی زبان کے نامور ادیب، صحافی اور دانش ور ہیں۔ جویو صاحب جی ایم سید مرحوم کے بے حد قریبی رفقاءمیں سے رہے ہیں۔ کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ”کاوش“ کے ادارتی صفحہ پر بروز منگل 2 اگست 2011ءکو انہوں نے اپنے تحریر کردہ مضمون میں اپنے مخصوص خیالات اور نظریات کو پیش کیا ہے۔ قوم پرستوں کے اہم سرخیل کی اس سوچ کا تلخیص و ترجمہ پیش خدمت ہے۔​
”انگریز شاعر ٹینی سن نے اپنی مشہور نظم ”دی سانگ دا لوٹس ایٹرس“ (Lotous eaters) میں یونانی سورما یولیس کی ایک سمندری مہم کا ذکر کیا ہے۔ اس مہم کے دوران یولیس اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سمندری سفر پر نکلتا ہے۔ چلتے چلتے وہ اپنے مرکزی بحری جہاز سے کسی طرح بچھڑ جاتا ہے۔ وہ مرکزی جہاز بہت دور ایک ویران جزیرے پر لنگرانداز ہوتا ہے۔ لوگ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس موقع پر خوراک کی قلت ہوجاتی ہے۔ مذکورہ جزیرے پر کنول کی مانند ایک بوٹی کے سوا کھانے کے لیے اور کچھ دستیاب نہیں ہوتا۔ دوسرا کوئی چارہ نہ دیکھ کر وہ کنول جیسا نشہ آور پودا ہی کھانے لگتے ہیں جس کے کھاتے ہی وہ نشے میں اور مخمور ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اچھلنی، کودنے اور گانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، اور اس طرح اس موقع پر ان سے یہ بات بالکل ہی فراموش ہو جاتی ہے کہ وہ کس مقصد سے نکلے تھے اور انہیں کچھ حاصل بھی کرنا تھا۔ جب یولیس تلاش کرتے کرتے ان تک پہنچتا ہے تو وہ اس کے ساتھ چلنے سے انکار کردیتے ہیں۔ بعینہ سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے بعد سندھ کے وڈیری، زمیندار، سردار اور پیرو میر بھی ”لوٹس ایٹرس“ بن گئے۔ انہوں نے اقتدار کا مزہ چکھا اور وہ اس لطف کے عادی ہوگئی، اور جب بھی ان کے سامنے سندھ اور سندھی قوم کے فائدے اور مفادات کی بات آئی انہوں نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے اقتدار کے لطف اور مزے ہی کو ترجیح دی۔ کراچی کو جب سندھ سے چھین کر مرکز کے حوالے کیا گیا اُس وقت بھی وہ اپنے خمار اور اقتدار کے نشے میں مست تھی، اور جب سندھ کی تاریخی حیثیت ختم کرکے اسے ون یونٹ میں شامل کرنے کی گھڑی آئی تو اُس وقت بھی وہ ”لوٹس ایٹرس“ خود کو ملنے والی ریاستی سہولیات اور مراعات سے دست بردار نہیں ہوئے۔ یہاں یہ تاریخی حوالہ دینا بھی مناسب ہوگا کہ جوڈاس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوست اور قریبی ساتھی تھا، اس نے صرف چاندی کے چند سکوںکے عوض لالچ میں آکر انہیں گرفتار کرادیا تھا، اگرچہ بعد ازاں جوڈاس نے مارے پچھتاوے اور شرم کی، اپنے مذکورہ فعل پر خودکشی کرلی تھی، مگر سندھ کی فرقہ وار قیادت جس میں اکثریت وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی تھی، ان سے اتنی بڑی غلطی سرزد ہوگئی لیکن انہیں پھر بھی کوئی پچھتاوا دامن گیر نہ ہوسکا جنہوں نے ایک پوری قوم کی گردن میں طوقِ غلامی ڈالا تھا۔ مذکورہ صورت حال تاحال برقرار ہے۔ سندھ اور سندھی قوم کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ان وڈیروں، سرداروں اور پیروں کو اضلاع اور حلقہ¿ انتخاب کی بنیاد پر سندھی عوام ووٹ دیتے ہیں اور اس طرح مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نمائدے مقرر ہوتے ہیں۔ مرکزی سطح پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے وہ بجائے سندھ کے پنجاب پر اپنی زیادہ توجہ مرتکز رکھتے ہیں اور اپنی پالیسیوں کو بھی کچھ اس طرح سے ترتیب دیتے ہیں کہ اکثریتی صوبہ زیادہ سے زیادہ مطمئن رہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ملک کی آبادی کا نصف سے بھی زائد حصہ پنجاب میں رہتا ہے اور اگر انہیں ملک پر اقتدار اور اختیار چاہیے تو اس کے لیے اکثریتی صوبے کی ہی بات کو ترجیح دینا ہوگی۔ جب کہ سندھ اور سندھی قوم اور اس کے مسائل ان کے لیے کسی طرح بھی ہرگز قابلِ ترجیح نہیں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ سندھی قوم کا ووٹ ”لوٹس ایٹرس“ کے کھاتے ہی میں استعمال ہوتا رہے۔ وڈیروں کو یہ یقین بھی ہے کہ سندھ میں ان کا پکا ووٹ بینک ہی، لہٰذا وہیں پر زیادہ دھیان دیا جائے جہاں ان کی مقبولیت کی سطح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور جہاں ووٹ بھی بہ کثرت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سندھ کی مرکز میں پنجاب کے مقابلے میں کم سیٹیں ہیں۔ اس طرح اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ مرکزی سطح پر سندھ ان کے ایجنڈے ہی میں شامل نہیں ہی، اور اس لیے ان کی اقتداری سوچ کا محور و مرکز پنجاب میں رہا ہے۔ معاملہ جب سندھ میں سندھ حکومت کا آتا ہے تو وہاں بھی انہی ”لوٹس ایٹرس“ کو اکثریت میں ووٹ ملتے ہیں۔ اس لیے کم از کم ہونا یہ چاہیے کہ جس طرح مرکزی سطح پر اکثریتی ووٹ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اسی طرح سندھ کی سطح پر بھی اکثریتی ووٹ کا احترام کیا جائے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی سطح پر اکثریتی ووٹ دینے والوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اقلیتی ووٹ کا احترام کیا جاتا ہے۔ مذکورہ سارے تناظر میں یہ بات جانی جاسکتی ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطح پر اقتدار کے کھیل میں ہر مرتبہ پیچھے رہ جانے والا فریق سندھ ہی ہے۔ سندھ کو مختلف ادوار میں جو چیلنج درپیش رہے ہیں انہیں کوئی زبردست اور مناسب جواب (Response) نہیں دیا جاسکا ہے۔ اگر مشہور تاریخ دان ٹوائن بی کی گیارہ جلدوں پر مشتمل کتاب ”اے اسٹڈی آف ہسٹری“ کا جوہر یا سَت نکالا جائے تو وہ محض دو الفاظ ہی میں ظاہر ہوگا، یعنی ایک للکار (Challenge) اور دوسرا جواب (Response)۔ یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ ہر شے کی ہیئت یا ڈھانچے کے قیام کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ خود کو درپیش للکار کا کیسے اور کس طرح جواب دیتا ہے۔ مثلاً غیر منقسم ہندوستان کو برطانوی سامراج کی ”للکار“ کا سامنا تھا۔ برطانوی سامراج کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدید جنگی حکمت عملی تھی جس نے اس کی للکار میں طاقت بھر دی تھی، جب کہ بدلے میں ہندوستان کے پاس یہ چیزیں عنقا تھیں اور سارا ہندوستان انتظامی اور سیاسی طور پر منتشر تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان خود کو درپیش ”للکار“ کا سامنا نہ کرسکا اور غلام بن گیا۔ اسی طرح متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سندھ کو ایک ”للکار“ کا سامنا تھا جسے مناسب اور ضروری جواب نہ دیا جاسکا اور نتیجتاً سندھ ایک نئی اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط غلامی کے دور میں داخل ہوگیا۔ اس وقت سندھ کی اس الگ تاریخی حیثیت کو منوانا تھا جو صدیوں سے برقرار چلی آرہی تھی یا جس حیثیت میں انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا تھا۔ اس طرف دھیان نہ دیا گیا۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیل 1947ءمیں تحریر کردہ میری کتاب ''Save the continent save Sindh'' اور بعض دیگر مضامین میں بھی ملتی ہے۔ اس کے بعد ایک مزید ”للکار“ ون یونٹ کی صورت میں سندھ کے سامنے آئی۔ اُس وقت بھی سندھ اسمبلی کے اکثریتی سندھی نمائندے اس قرارداد کو مسترد کرنے کے بجائے اس کے حق میں کھڑے ہوئے نظر آئے۔ یہ ایک تاریخی قرارداد تھی جس نے مکمل طور پر سندھ سے سندھ کی تاریخی حیثیت ہمیشہ کے لیے چھین لی۔ تاریخ کے اس بے حد نازک دور میں بھی سندھ کے نام نہاد نمائندے عرف ”لوٹس ایٹرس“ سندھ کو درپیش اس ”للکار“ کا کوئی ”جواب“ نہیں دے سکے اور وہ اپنی روایتی ترنگ میں سندھ وطن اور سندھی قوم کے بجائے نام نہاد وفاق پرستی کا راگ الاپتے رہے۔ اس دوران گزشتہ چھ دہائیوں میں سندھ کو متعدد بار ”للکار“ کا سامنا رہا ہے۔ حالیہ ”للکار“ بھی سندھ کو تقسیم کرنے کے نام سے ہمارے سامنے آئی ہی، اور اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بھی اس ”للکار“ کو ویسا ہی ”جواب“ بھی دیں۔ سندھ کو تقسیم کرنے کی بات ایک مرتبہ پھر ایک لسانی تنظیم کی طرف سے کی گئی ہے جسے سندھی عوام سے تعصب رکھنے والا میڈیا کا ایک مخصوص گروہ بھی ہوا دے رہا ہے۔ کراچی سمیت حیدرآباد کی دیواروں پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہمارے لیے ہرگز کوئی نئی بات نہیں ہی، ہاں البتہ اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ اس وجہ سے لسانی تنظیم کا باطن ہمارے سامنے اور نمایاں ہوگیا ہے کہ وہ تاحال اپنی مخصوص ”مہاجر ذہنیت“ سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب ایم کیو ایم ”مہاجر قومی موومنٹ“ سے تبدیل ہوکر ”متحدہ قومی موومنٹ“ بنی تو اُس وقت عام طور پر یہ خیال کیا گیا تھا کہ اس نے اپنی روایتی لسانی روش چھوڑ کر ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے۔ اسے یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ خود کو وہ ”متحدہ عوامی موومنٹ“ کہلوائے اور اس حوالے سے ”سندھ میں امن اور بھائی چارہ“ کے زیر عنوان اعلامیہ ابھی تک موجود ہے۔ یہ اعلامیہ طول طویل بحث ومباحثوں اور محنت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ صورت حال میں یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی ہے کہ ”مہاجر“ سے پھر کر ”متحدہ“ بننا محض ایک دکھاوا تھا اور وہ اندر سے جیسی تھی تاحال ویسی ہی ہے۔ مہاجر اور سندھی آبادی کو باہم ملانے کے لیے مختلف اوقات میں جو کوششیں ہوئی ہیں وہ سب بے ثمر ثابت ہوچکی ہیں۔ اور ایم کیو ایم بھی ایسی نہیں ہے جس طرح کے وہ دعوے کرتی رہتی ہے۔ سائیں جی ایم سید نے سندھی مہاجر آبادی کو اکٹھا کرنے کی عملی نوعیت کی کوششیں اس لیے کی تھیں کہ اس طرح سے یہ باہمی اتحاد خود سے طاقتور اور بالادست پنجاب کی اجارہ داری کو چیلنج کرسکے گا جس سے سندھ مزید مضبوط اور طاقتور ہوگا۔ سید مرحوم کی مذکورہ سوچ ایک حکمت عملی پر مبنی تھی اور یہ کوئی طے شدہ بنیادی اصول نہیں تھا کہ مہاجر آبادی یا ان کی نمائندگی کی دعوے دار کوئی بھی تنظیم ”تقسیم سندھ“ جیسی انتہائی ڈیمانڈ کرے گی تو اس کے باوجود ان کی حمایت یا طرف داری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت جب کہ لسانی حلقے نے تقسیم سندھ کی بات کی ہے تو ہماری سندھ دوست سیاسی تنظیموں کی اکثریت نے لسانی جماعت کے اس انتہائی خطرناک رویّے کو بجائے غلط قرار دے کر اس کی مذمت کرنے کے اس کی حمایت اور دفاع کیا ہے۔ ایک جانب اتنی شدید ”للکار“ ہے اور دوسری جانب یہ ہماری ”موت“ ہے۔ بہرحال یہ ساری مہربانی پیپلزپارٹی کی ہے جس نے اپنے اقتداری مفادات کے لیے ایم کیو ایم سے شروع میں معاہدہ کیا، بعد میں اختلاف کیا اور اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی اصلیت بھی عیاں ہوگئی ہے۔ لسانی تنظیم کی یہ مسلسل خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہ بعض خاص عالمی طاقتور اداروں اور ملک کے طاقتور اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے کسی طرح کراچی کو (کم ازکم) الگ صوبے کی حیثیت دلا دے یا سندھ کی راجدھانی پر کم از کم کسی نہ کسی طرح اپنا قبضہ برقرار رکھے۔ اول الذکر معاملے میں وہ یکے بعد دیگرے آنے جانے والی حکومتوں میں شامل رہ کر اور جنرل مشرف کی خطرناک قسم کی لسانی آمریت کے دور میں کسی حد تک کامیاب رہی ہی، مگر اب کراچی پر اس کی گرفت کمزور ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ کراچی کی آبادی کے تناسب میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ایم کیو ایم کا موجودہ رویہ بھی آبادی کے تناسب میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباو کا ردعمل ہے جو شدید بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایم کیو ایم اپنی شدت پسندی سے زبانی طور پر ایک دم پیچھے ہٹی ہے۔ اس کا یہ عمل نشاندہی کرتا ہے کہ کراچی میں شدت پسندی متواتر رہنے کی وجہ سے وہاں طاقت کے مزید مراکز بھی حرکت میں آسکتے ہیں اور ایک لسانی تنظیم کی نام نہاد طاقت، رعب اور دبدبے کا پردہ بھی چاک کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی سے اب ایم کیو ایم کے پاس محض ”خوف“ کا ہتھیار ہی باقی رہ گیا ہی، وہ اب کسی طور یہ نہیں چاہتی کہ اہلِ کراچی ”خوف“ کے اس دائرے سے باہر نکل سکیں۔ جہاں تک سندھ کو عالمی قوتوں اور مقامی طاقتور حلقوںکی مدد سے تقسیم کرنے کی سوچ کا تعلق ہی، تو یہ بات بھی کوئی معمولی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کے اختیار میں ہے۔ ملک کے طاقتور ادارے ایک خاص حد سے زیادہ ایم کیو ایم کی مدد نہیںکریں گی، کیوں کہ اپنی سرشت میں ایک شدت پسند گروہ کے لیے ایک الگ صوبے کا انتظام کرنا ایک انتہائی خطرناک قدم ہوگا۔ ایم کیو ایم نہ تو کراچی کو مستقل بنیادوں پر سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیوں کہ وہ ایک مقبول عوامی یا جمہوری تنظیم نہیں ہے جسے عوام میں ہردلعزیزی حاصل ہو اور نہ ہی کوئی ایسا بندوسبت اہلِ کراچی ہی کے لیے قابلِ قبول ہوگا جو پہلے ہی ایم کیو ایم کے یرغمال بنے ہوئے ہیں، اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالکان کے لیے بہتر ہوگی، کیوں کہ کراچی کی کاروباری اور معاشی سرگرمیاں سارے ملک کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بہرحال صورت حال جو بھی ہو، اصل بات یہ ہے کہ سندھ کو تقسیم کرنے کی جو بھی بات کرے اور یہ معاملہ ہمارے سامنے ایک ”للکار“ کی صورت میں آئے تو ہمیں بھی اس کا اسی سطح پر ”جواب“ دینا چاہیے۔ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اپنی چیزوںکے آپ ہی مالک بھی بنیں اور اس سلسلے میں روایتی وڈیروں عرف ”لوٹس ایٹرس“ سے کسی نوع کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیی، اور نہ ہی کسی لسانی تنظیم کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا چاہیے۔ اس سارے معاملے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر ہمیں کرنا کیا چاہیی؟ یہاں یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ ایک بیدار، محب وطن اور محنتی اقلیت اسی وقت لگاتار استحصال کرنے والی اکثریت سے اپنی جان آزاد کراسکتی ہے جب وہ دیگر اکثریتی پسے ہوئے مظلوم عوام کو اپنا ہم خیال بناکر ان کے حقوق اور مفادات کی ہر طرح سے ترجمانی کرے۔
(افسانہ افطاری کے تلاش میں محمد ابراہیم جویو کو گوگل کیا تو ان کی اس تحریرپر نظر پڑی، جو پیش خدمت ہے)
 

یوسف-2

محفلین
محمد ابراہیم جویو
i+joyo.jpg
 
Top