شہزاد احمد سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی - شہزاد احمد

صائمہ شاہ

محفلین
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی
سفر تو آٹھ پہر کا تھا جستجو کیا تھی

وہ آبشار کے پانی سی طبع رکھتا تھا
مگر تھکے ہوئے لہجے کی گفتگو کیا تھی

ہوئی شکست جہاں فتح کا یقین ہوا
کوئی چھپا ہوا دشمن تھا آرزو کیا تھی

تلاش کرتے ہو کس شے کو کس خرابے میں
درخت ہی نہ رہے شاخِ رنگ و بو کیا تھی

تو آفتاب اگر تھا تو کیوں غروب ہوا
یہ روشنی سی تیرے بعد چار سو کیا تھی
 

طارق شاہ

محفلین
تلاش کرتے ہو کس شے کو کس خرابے میں
درخت ہی نہ رہے شاخِ رنگ و بو کیا تھی
کیا کہنے

بہت شکریہ شاہ صاحبہ ۔اس انتخاب خوب کے لئے
 

الف عین

لائبریرین
اف یہ کاپی پیسٹ، ایک بار کسی نے غلطی کی تو ہر جگہ وہ بھی کاپی ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخری شعر پر انگشت بدنداں ہوں، اتفاق کہ یہ میری ای بک میں بھی چلا آیا ہے، اب اس شعر کو تو کم از کم نکال ہی دوں۔
درخت پُختہ چٹانیں توڑ کر نکل آئے
یہ عذاب ہی تھا قوتِ نمو کیا تھی
 

صائمہ شاہ

محفلین
اف یہ کاپی پیسٹ، ایک بار کسی نے غلطی کی تو ہر جگہ وہ بھی کاپی ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخری شعر پر انگشت بدنداں ہوں، اتفاق کہ یہ میری ای بک میں بھی چلا آیا ہے، اب اس شعر کو تو کم از کم نکال ہی دوں۔
درخت پُختہ چٹانیں توڑ کر نکل آئے
یہ عذاب ہی تھا قوتِ نمو کیا تھی
انکل بے شک آپ بہتر جانتے ہیں غلطی کی نشاندہی تو ہو گئی اگر اصلاح بھی فرما دیں بے حد شکرگذار رہوں گی کیا مذکورہ شعر اس غزل کا حصہ نہیں ہے؟ میں ہمیشہ انٹرنیٹ سے ہی پڑھتی ہوں اور یقیناً آپ کے علم میں ہو گا کہ وہا ں غلطیوں کی بہت گنجائش ہے اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ نشاندہی کے ساتھ ساتھ تصیح بھی فرما دیا کیجیے تاکہ مجھ جیسوں کا بھلا ہو تا رہے۔ شکریہ
 
Top