سلطنت عثمانیہ کا عظیم بادشاہ

باسل احمد

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سلیمان اعظم
(سلطنتِ عثمانیہ کے عظیم بادشاہ)
1288ء میں اناطولیہ میں عثمانی ترکوں نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی جو اناطولیہ سے یورپ کے قلب تک پھیل گئی۔عثمانی حکومت کا آغاز ایک چھوٹی سی ریاست سے ہوا جو بڑھتے بڑھتے تین براعظموں اور سات سمندروں کو محیط ہوگئی۔ عثمانی ترکوں کی یہ حکومت 1924ء تک خلافت کی حیثیت سے قائم رہی۔سلیمان اول (المعروف سلیمان قانونی اور سلیمان اعظم( سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا تھے جنہوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ وہ بلاشبہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم حکمران تھے جنہوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انہوں نے مملکت کے لئے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر تُرک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔
ابتدائی زندگی:
سلیمان 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جبکہ والدہ کا نام عائشہ تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انہیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔
بحیثیت سلطان:
1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہورہی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈاور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔
یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لئے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کاجو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انہیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔
1521ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔ بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریائے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔1522ء میں روڈس کے جزیرہ کا محاصرہ کیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ اور جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیشکش کی۔ اس نے اہل روڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اپنے تمام اسلحہ اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرہ ہی میں رہنا منظور کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے۔ روڈس کی فتح کے بعد ’’بہادر نائٹوں‘‘ (Knights) کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں (جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں) ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔
1526ء میں سلیمانِ اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔1529ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر1529ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی دیواروں تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن آسٹریا والوں کی تمام دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔27ستمبر سے14اکتوبر1529ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ’’ینی چری‘‘ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔
وفات:
1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گنٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لئے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ زیگیٹوارکا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشانے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فوراًموقوف ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔
کارنامے:
سلطان نے حکومت کے اداروں کا انتظام اس قدر عمدگی سے کیا کہ اسے مثالی انتظام کہا جاسکتا ہے۔ ان کا دور ایک جمہوری دور تھا۔ انہوں نے شاہی خاندان کے افراد کی بجائے وزیر اعظم صوقوللی پاشا کو نظم و نسق سونپ دیا تھا۔ انہوں نے قانون سازی کی طرف خصوصی توجہ دی، فوج کی نظم و تربیت، فوجی نظام جاگیرداری، زمینی جائیداد کے قوانین، پولیس اور فوج کی خدمات کے عوض جاگیر وغیرہ دینے کا ضابطہ اور آئین مرتب کروایا۔ انہوں نے محصول کی مقدار خود مقرر کی تھی۔ قانون کی رو سے کاشتکار اراضی کا مالک تھا۔ کاشتکاروں کو میسر سہولیات کی وجہ سے ہنگری کے علاقوں میں مقیم اکثر عیسائی کاشتکار بھاگ کے مسلمانوں کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ مختلف جرائم کے لئے سزائیں مقرر کی گئیں اور ان تمام قوانین کو بعد میں مجموعے کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ سلطان نے ملک بھر میں اشیائے صرف کی قیمتیں مقرر کیں،محکمۂ انسداد بے رحمی حیوانات بنوایا۔ سرکاری دفاتر میں ریکارڈ مرتب کروائے جو "کوتکات" کہلاتے تھے۔ انہوں نے آب رسانی کے نظام کو بھی بہت ترقی دی۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر جاری کروائی اور مکہ مکرمہ کی پرانی نہروں کی مرمت کروائی۔ بڑے شہروں میں ہسپتال قائم کئے اور پل بنوائے۔ مکہ مکرمہ میں چاروں فقہی مذاہب کے لئے چار مدرسے قائم کئے۔ متعدد شہروں میں خوبصورت مساجد تعمیر کروائیں جن کے ساتھ مدارس بھی کام کرتے تھے۔
1424ء میں سلطان مراد ثانی کے زمانے میں شیخ الاسلام کا عہدہ قائم ہوا تھا، سلطان سلیمان نے اسے برقرار رکھا اور یہ عہدہ دولت عثمانیہ میں 498 سال تک رہا اور اس پر 131 علماء فائز ہوئے۔
سلطان نے فوج کو بہتر بنانے کا خاص انتظام کیا ان کے پاس مستقل تنخواہ دار فوج 24 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا لیکن جنگ کے موقع پر دو لاکھ سپاہی میدان میں لائے جاسکتے تھے۔ انہوں نے فوج کو محض انتقامی جذبے سے کبھی کسی مہم پر روانہ نہیں کیا۔ جب بھی فوج جنگ کے لئے روانہ ہونے لگتی تو اسے سختی سے تاکید کی جاتی کہ وہ عوام کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
فن تعمیر وہ میدان ہے جس میں سلطان کے کارنامے آج بھی مستحکم صورت میں اپنی نوعیت اور جاہ و جلال کی داستاں بیان کررہے ہیں۔ سلطان نے مفتی ابو السعود کے فتوے کی بنیاد پر کعبۃ اللہ کی از سر نو تعمیر کروائی۔ سلطان کی تعمیر نے ترک ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہم سلیمان قانونی کو سلطنت عثمانیہ کا شاہجہاں کہہ سکتے ہیں۔ ان کے دور کے مشہور ترین معمار سنان پاشا تھے۔ سلطان کے دور میں جو مساجد تعمیر ہوئیں ان میں بلند ترین مقام جامع سلیمانیہ کا ہے جو 1550ء سے 1556ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر ہوئی۔ یہ عظیم مسجد شہر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول)کی سب سے اونچی پہاڑی پر تعمیر کی گئی اور آج بھی موجود ہے۔ سلطان کی قبر مسجد کے صحن میں موجود ہے اور وہیں سلیمان ثانی اور کئی دیگر عثمانی خواتین کی قبریں بھی ہیں۔
علم و ادب سے گہرا شغف:
سلیمان کا عہد علم وادب کے حوالے سے بھی یادگار ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا سب سے بڑا شاعر عبدالباقی اُسی دورسے تعلق رکھتا تھا۔ سلیمان اہلِ علم کا نہایت قدر دان اور خود بھی شاعراور مصنف تھا۔ اس کے علمی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ دورانِ جنگ روزمرہ کے واقعات تحریر کرتا رہتا تھا۔ اس کے یہ روزنامچے سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ کے ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سلطان سلیمان ایک عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔
ذاتی زندگی:
جہاں تک سلیمانِ اعظم کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اس کی صفات اس کی عظمت کی دلیل ہیں۔ اس کی دانشمندی، منصف مزاجی، فیاضی، نرم دلی اور خوش اخلاقی ضرب المثل تھی۔ اس کی خداداد ذہنی صلاحیتیں، اس کے کردار کی تکمیل تھیں۔ایڈورڈ کریسی نے سلیمان کے کردار کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:
بطور ایک انسان وہ پرجوش اور مخلص تھا اور ہوس پرستی سے باعزت طور پر پاک تھا، جس نے اس کی قوم کے بہت سے لوگوں کو بدنام کر رکھا تھا۔ اس کی شاندار جرأت، فوجی ذہانت، اس کی اعلیٰ مہم جوئی، جو ش و ولولہ، اس کی جانب سے علم و فن کی حوصلہ افزائی، فتوحات اور دانشمندی پر مبنی قانون سازی کو یاد رکھنا چاہیے۔
ایورسلے تحریر کرتا ہے:
اس کی ذاتی زندگی میں کوئی تعیش نہ تھا۔
ماہر ترکیات ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں:
اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا۔ انصاف اس کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمحِ نظر تھا۔
ناقدانہ نظر:
سلطان سلیمانِ اعظم قانونی، حکومت کے فرمانروا کی حیثیت سے بھی اور اپنے کردار کے لحاظ سے بھی، آنے والے حکمرانوں کے لیے عمدہ مثال چھوڑ کرگیا۔
ان تمام کارناموں اور خوبیوں کے باوجود سلیمان اعظم وہ بلند مقام حاصل نہ کرسکے جو خلفائے راشدین یا عمر بن عبدالعزیزکا تھا بلکہ ہم انہیں نور الدین، صلاح الدین اور اورنگزیب جیسی جلیل القدر ہستیوں کے مقابلے میں بھی پیش نہیں کرسکتے۔
نور الدین، صلاح الدین اور اورنگزیب ہر فیصلہ تحقیق کے بعد کرتے تھے۔ بیت المال سے مقررہ رقم لیتے تھے البتہ سلیمان کو ہارون الرشید، مامون الرشید، ملک شاہ سلجوقی اور شاہجہاں جیسے بادشاہوں کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے، وہ جمہوری حکمران نہیں تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا تھے، ہر معاملے کو عدالت میں پیش کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے بہکانے سے شبہ میں آکر اپنے ایک لڑکے مصطفٰی اور اپنے سب سے بہترین وزیراعظم ابراہیم کو قتل کرادیا۔
سلیمان اعظم،شیر شاہ سوری اورجلال الدین محمد اکبر کے ہمعصر تھے لیکن اس کے باوجود اپنے زمانے کا سب سے بڑا حکمران تھے۔ شیر شاہ کی سلطنت چھوٹی تھی اور انہوں نے صرف 4 سال حکومت کی جبکہ اکبر نے یقیناً ایک بڑی سلطنت قائم کی جو پائیدار بھی تھی لیکن سلیمان کی زندگی میں اکبر کی حکومت کو پورا عروج نہیں ہونے پایا تھا اس طرح سلیمان اپنی زندگی میں دنیا کے سب سے بڑے حکمران تھے۔سلیمان نے اپنی وفات تک تقریباً نصف صدی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کیاور سلطان سلیمان کادور نہ صرف عثمانی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے۔

حوالہ جات:

  • "عظیم مسلمان شخصیات" ، ماہنامہ رابطہ، مصنف: کلیم چغتائی
  • دولت عثمانیہ از ڈاکٹر محمد عزیز
  • سلاطین ترکیہ از اسٹینلے لین پول/ نصیب اختر
  • دس سلطان از سید بشیر احمد اسعدی
  • تاریخ ترکیہ از نصیر احمد ناصر
  • دائرۂ معارف اسلامیہ
  • ویکیپیڈیا ،آزاد دائرہ معارف
 
آخری تدوین:
آج کل میرا سلطان کے نام سے ایک پروگرام بھی چل رہا ہے۔
میرا سلطان ، اصل میں ایک عالمی سطح پر ایک سپر ہٹ ٹی وی سیریل ہے۔ جسکے بہت سی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں، یہاں خلیج میں یہ "حریم سلطان" یعنی سلطان کی عورتیں کے نام سے چلتا رہا ہے اور انگریزی میں یہ Magnificent Century کے نام سے ڈب ہو کر چلتا رہا ہے۔
مزید معلومات وکیپیڈیا۔ اور ربط۔
 
مجھے یہ لگتا ہے کہ دنیا کی کچھ قوموں میں قدرتی طور پر عظمت کے جزو ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے اگر ایک جگہ پر یہ مار کھا جائیں تو دوسری جگہ پر یہ اپنی صلاحیتیں منوا لیتے ہیں۔ مثلاًً جرمنی نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد اب ایک بار پھر اپنے آپ کو منوایا ہے اور یورپ کی سب سے بڑی اکانومی ہے۔ ایسے ہی جاپان نے اس وقت ایٹمی دھماکوں سے زخمی ہونے کے بعد اپنے آپ کو منوایا ہے اور اس وقت دنیا کی تیسری بڑی اکانومی ہے۔ ایسے ہی اب ترکی بھی دوبارہ اٹھ رہا ہے اور اس وقت جی 20 کا ممبر ہے۔ اور دنیا کی 17 ویں بڑی اکانومی ہے۔ مجھے امید ہے ترکی میں ایسی قومی پوٹینشل ہے کہ یہ قوم مسقبل میں بہت آگے جائے گی۔
 
Top