سلسلہ کیا یہ کائناتی ہے زندگی ہے، نہ موت آتی ہے

میاں وقاص

محفلین
سلسلہ کیا یہ کائناتی ہے
زندگی ہے، نہ موت آتی ہے

گھر میں آسیب تو نہیں کوئی
"روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے"

اس کو دیجے قضا کی بیساکھی
زندگی اب کے لرکھڑاتی ہے

دن نکلتا ہے، سوگ لاتا ہے
رات آتی ہے، دندناتی ہے

مجھ کو دشت_جنوں کی ویرانی
آج شاید صدا لگاتی ہے

وہ رویے میں سرد مہری سی
آگ سینے میں آ لگاتی ہے

حسن پر عشق ہو گیا غالب
یہ کرامت بھی معجزاتی ہے

اور کوئی ادھر نہیں آتا
اب فقط سانس آتی جاتی ہے

ہاں؛ مگر فاصلہ نہ تم پوچھو
جو یہاں سے گزر کے جاتی ہے

گھر نہیں ہے، مزار ہے شاید
روشنی سی جو ٹمٹماتی ہے

وہ جو میرا فقط سہارا تھی
اب وہ غربت بھی مسکراتی ہے

کیا ہوا میری نیند جاتی ہے
شکل خوابوں میں ایک آتی ہے

آج قاصد کہاں گیا شاہین
رابطہ اب مواصلاتی ہے

حافظ اقبال شاہین
 
Top