سلام یا حسین علیہ السلام : محرم الحرام 1435ھ

حسینی

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوں سے چراغ دیں جلایا حسین (ع)نے
رسم وفا کو خوب نبھایا حسین (ع)نے
خود کو تو ایک بوند بھی پانی نہ مل سکا
کرب وبلا کو خون پلایا حسین (ع)نے
ایسی نماز کون پڑھے گا جہان میں
سجدہ کیا تو سر نہ اٹھایا حسین (ع)نے
سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا
اصغر سا پھول بھی نہ بچایا حسین (ع)نے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

انسان كو بيدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

صرف حسین کیوں؟ ابو بکر ،عمر ، عثمان ، علی المرتضیٰ ،امیر معاویہ،طلحہ و زبیر اور تمام صحابہ اکرام رضی اللہ عنہما سب کے کیوں نہیں؟
 

حسینی

محفلین
واہ ماشاءاللہ بہت خوب ..لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کیساتھ علیہ سلام کےبجائے رضی اللہ لکھاجائےتواچھاہوگا

کیوں بھائی ؟ اس کی کیا وجہ ہے؟؟
اگر آپ کے سب سے بڑے محدث امام بخاری نے ان کے لیے علیہ السلام کہا ہے تو آپ کون ہوتے ہیں منع کرنے والے؟؟
اور علیہ السلام کہنے میں ممانعت کیا ہے؟؟
 

حسینی

محفلین
صرف حسین کیوں؟ ابو بکر ،عمر ، عثمان ، علی المرتضیٰ ،امیر معاویہ،طلحہ و زبیر اور تمام صحابہ اکرام رضی اللہ عنہما سب کے کیوں نہیں؟

بھائی جی۔۔ اس لڑی میں مجھے آپ سے کوئی بحث نہیں کرنی۔۔۔ اگر محرم الحرام کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی تحریر ہے تو شئیر کر سکتے ہیں۔
ورنہ اگر بحث پر اتر آئیں تو بات سنبھالنی مشکل ہو جائے گی۔۔ امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔
 

حسینی

محفلین
کربلا دین کی تہذیب کا گہوارہ ہے
روشنی جس سے ابلتی ہے وہ فوارہ ہے
فکر شبیر (ع) کا وہ بہتا ہوا دھارا ہے
جس نے ہر دور کے فرعون کو للکارا ہے
حق سے باطل جو کسی موڑ پہ ٹکراتا ہے
لب تاریخ پہ شبیر (ع) کا نام آتا ہے

کربلا کا ہے یہ پیغام پئے فکر بشر
وقت کے ساتھ ہے جاری حق وباطل کا سفر
کربلا کے جو اجالوں سے منور ہو نظر
پیش باطل نہ جھکے کبھی انسان کا سر
کربلا رنگ اگر رنگ تفکر ہو جائے
نفس آزاد ہو اس طرح کہ حر (ع) ہو جائے

پئے بیعت جو یہ اصرار تھا اور اتنا شدید
تھی تمنا کہ کرے عدل، ستم کی تایید
تیغ ظالم نے کیا سبط پیمبر(ع) کو شہید
پھر بھی پوری نہ ہوئی اصل تمنائے یزید
خود سے شرمندہ ہے بیعت کا سوالی اب تک
ظلم کا پھیلا ہوا ہاتھ ہے خالی اب تک

اے حسین ابن علی(ع) فاتح جنگ کا اقدا
حق کا اثبات ہے بیعت سے وہ تیرا انکار
تیرے انکار میں پوشیدہ تھے کیا کیا اسرار
ان کی تفہیم کو ہوں گی ابھی صدیاں درکار
کچھ بیاں ہو چکی کچھ شرح ابھی باقی ہے
کربلا ایسی حقیقت ہے جو آفاقی ہے۔

(پروفیسر سردار نقوی)
 

x boy

محفلین
بھائیوں اور دوستوں اور عزیزوں،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بحث میں پڑنا اچھی بات نہیں، اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے مکمل ہوچکی تھی اور ہم تک پہنچ گیا، قرآن الکریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی، پھر جن کو اسی طرح لینا ہے لے لے جنکوں دوسرے طریقے سے لینا لے لے۔
علیکم بسنتی۔ سنت۔ خلفائے راشدین۔
 

آصف اثر

معطل
بھائی جی۔۔ اس لڑی میں مجھے آپ سے کوئی بحث نہیں کرنی۔۔۔ اگر محرم الحرام کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی تحریر ہے تو شئیر کر سکتے ہیں۔
ورنہ اگر بحث پر اتر آئیں تو بات سنبھالنی مشکل ہو جائے گی۔۔ امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔
محترم حسینی صاحب۔۔۔آپ تو غصے کے بڑے تیز لگتے ہیں۔۔۔
 

حسینی

محفلین
کربلا آج بھی ہے ایک لگاتار پکار
ہے کوئی پیروی ابن علی(ع) پر تیار
عصر حاضر میں یزیدوں کا نہیں کوئی شمار
تم مصلوں پہ دوزانو ہو، مسلح اشرار
شور ماتم میں کہیں تیغ کی جھنکار نہیں
لب پہ نالے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں

کربلا اب بھی سر وقت پہ لہراتی ہے
زلف کی طرح خیالات پہ بل کھاتی ہے
خامشی رات کو جس وقت کہ چھا جاتی ہے
دل زینب کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے
کبھی ظلمت میں جو کوندا سا لپک جاتا ہے
ایک قرآن بلندی پہ نظر آتا ہے

کربلا سر سے کفن باندھ کر جب آتی ہے
وسعتِ ارض و سماوات پہ چھا جاتی ہے
تند انفاس سے فولاد کو برماتی ہے
تبر و تیر کو خاطر میں نہیں لاتی ہے
چڑھ کے نیزے پہ دو عالم کو ہلادیتی ہے
کربلا موت کو دیوانہ بنادیتی ہے

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلؤوں سے مسل سکتی ہے
کربلا، خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعئہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

(جوش ملیح آبادی)
 

ساقی۔

محفلین
بھائی جی۔۔ اس لڑی میں مجھے آپ سے کوئی بحث نہیں کرنی۔۔۔ اگر محرم الحرام کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی تحریر ہے تو شئیر کر سکتے ہیں۔
ورنہ اگر بحث پر اتر آئیں تو بات سنبھالنی مشکل ہو جائے گی۔۔ امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔

کیوں بھائی جی اس لڑی میں فرشتے سلامتی لے کر اتر رہے ہیں کیا ؟
 

سید ذیشان

محفلین
کربلا آج بھی ہے ایک لگاتار پکار
ہے کوئی پیروی ابن علی(ع) پر تیار
عصر حاضر میں یزیدوں کا نہیں کوئی شمار
تم مصلوں پہ دوزانو ہو، مسلح اشرار
شور ماتم میں کہیں تیغ کی جھنکار نہیں
لب پہ نالے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں

کربلا اب بھی سر وقت پہ لہراتی ہے
زلف کی طرح خیالات پہ بل کھاتی ہے
خامشی رات کو جس وقت کہ چھا جاتی ہے
دل زینب کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے
کبھی ظلمت میں جو کوندا سا لپک جاتا ہے
ایک قرآن بلندی پہ نظر آتا ہے

کربلا سر سے کفن باندھ کر جب آتی ہے
وسعتِ ارض و سماوات پہ چھا جاتی ہے
تند انفاس سے فولاد کو برماتی ہے
تبر و تیر کو خاطر میں نہیں لاتی ہے
چڑھ کے نیزے پہ دو عالم کو ہلادیتی ہے
کربلا موت کو دیوانہ بنادیتی ہے

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلؤوں سے مسل سکتی ہے
کربلا، خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعئہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

(جوش ملیح آبادی)


بہت عمدہ کلام۔ شیئر کرنے کے لئے شکریہ حسینی بھائی۔ :)
 

حسینی

محفلین
کربلا میں امر حق کی برتری کی جنگ تھی
طاقت نان شعیر حیدری(ع) سے جنگ تھی
عظمت دیرینئہ پیغمبری(ص) سے جنگ تھی
جس کا قرآن میں ہے ذکر اس داوری سے جنگ تھی
کب نفاق ارباب حق سے برسر پیکار تھا
وہ خدا پر آخری لات وہبل کا وار تھا

کفر نے کاٹا نہیں تھا مصحف ناطق کا سر
اصل میں قرآن وہ پھینکا گیا تھا پھاڑ کر
حملہ آور ابن حیدر (ع)پر نہ تھے ارباب شر
ضرب تھی وہ اصل میں اسلام کی بنیاد پر
چند جانبازوں کی جانب رخ نہ تھے آفات کا
دن پہ وہ در اصل میں دھاوا تھا اندھیری رات کا

وہ نہ تھا افتاد طشت حق کا صوتی ارتعاش
مصطفی سے دشمنی کا وہ ہوا تھا راز فاش
خیمہ شبیر(ع) کو گھیرے نہیں تھے بدقماش
گردن حق کے لیے تھی ریسماں کی وہ تلاش
اشقیاء ُ جھپٹے نہ تھے ابن شہ لولاک پر
اصل میں بت آستینوں سے گرے تھے خاک پر

کر دیا تو نے ثابت اے دلاور آدمی
زندگی کیا موت سے لیتا ہے ٹکر آدمی
کاٹ سکتا ہے رگ گردن سے خنجر آدمی
لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتر آدمی
ضعف ڈھا سکتا ہے قصر افسر واورنگ کو
آبگینے توڑ سکتے ہیں حصار سنگ کو
 

صرف علی

محفلین
دیکھی جو میری نبض تو کچھ دیر سوچ کر
کاغذپہ بیمار عشق شبیر لکھ دیا
قربان کیوں نہ جاوں میں ایسے طبیب پر
نسخے میں جس نے ماتم شبیر لکھ دیا
 

حسینی

محفلین
فلک پہ چاند محرم کا ہوگیا ظاہر
جناب فاطمہ زہرا (ع) کو یہ بتانا ہے
تمہارے لعل کے ہم سوگوار ہیں بی بی
تمہارے زخم پہ مرہم ہمیں لگانا ہے
 

حسینی

محفلین
مولا امام حسین علیہ السلام کی شان میں:

جو دھکتی آگ کے شعلے پہ سویا وہ حسین(ع)
جس نے اپنے خون سے عالم کو دھویا وہ حسین(ع)
جو جواں بیٹے کی میت پر نہ رویا وہ حسین(ع)
جس نے سب کچھ کھو کے پھر بھی کچھ نہ کھویا وہ حسین(ع)
مرتبہ اسلام کا جس نے دو بالا کر دیا
خون نے جس کے دو عالم میں اجالا کر دیا
 

حسینی

محفلین
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا...
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ(ص) ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین(ع) ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
 

حسینی

محفلین
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد - غزل مولانا محمد علی جوہر

دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو...
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر بحوالہ "نقوش غزل نمبر"، لاہور، 1985ء
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللهم صلی اللہ محمد وعلی آل محمد

شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسین
 

نایاب

لائبریرین
حسین ابن علی علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاری ہے اہل جبر پے ہیبت حسین کی
الله رے یہ شان جلالت حسین کی
کٹوا کے سر گواھی توحید دے گئے
بے مثل ہے جہاں میں شہادت حسین کی
کرتے قبول بیت فاسق وہ کس طرح
دست محمدی پے تھی بیعت حسین کی
 
Top