فارسی شاعری سعی کن در عزتِ سی پارهٔ ماهِ صیام - میرزا محمد علی صائب تبریزی

حسان خان

لائبریرین
سعی کن در عزتِ سی پارهٔ ماهِ صیام
کز فلک از بهرِ تعظیمش فُرود آمد کلام
آدمی ممتاز شد از سایرِ حیوان به صوم
نامهٔ انسان به این مُهرِ خدایی شد تمام
چون درِ دوزخ دهان گر چند روزی بسته شد
باز شد چندین در از جنت به رُویِ خاص و عام
خالِ رُویِ مه‌جبینان گر ز مُشک و عنبر است
از شبِ قدر است خالِ چهرهٔ ماهِ صیام
نیست در سالی دو عید افزون و از فرخندگی
عید باشد مردمان را سی شبِ این ماه تمام
لذتِ افطار در دُنبال باشد روزه را
صبح اگر بندد دری ایزد گشاید وقتِ شام
روزه سازد پاک صائب سینه‌ها را از هوس
ز آتشِ اِمساک می‌سوزد تمناهایِ خام
(صائب تبریزی)


ترجمہ:
ماہِ صیام کے سی پاروں (یعنی تیس حصوں) کی عزت کرنے کی کوشش کرو کہ جن کی تعظیم کی خاطر فلک سے کلام نازل ہوا ہے۔
آدمی دیگر تمام جانداروں سے روزے کے وسیلے سے ممتاز ہوا اور نامۂ انسان اس خدائی مُہر کے ذریعے تمام ہوا۔
اگر (اس ماہ میں) چند روز کے لیے دوزخ کے دروازوں کی طرح دہن بند ہوا تو (عوض میں) جنت کے کئی دروازے خاص و عام کے چہروں پر کھل گئے۔
اگر مہ جبینوں کے چہرے کا خال مشک و عنبر سے ہے تو ماہِ صیام کے چہرے کا خال شبِ قدر سے ہے۔
ایک سال میں دو سے زیادہ عیدیں نہیں ہوتیں، تاہم (اس ماہ کی) سعادت و برکت سے اس ماہ کی تمام تیس راتیں مردُم کے لیے عید ہیں۔
روزے کے عقب میں افطار کی لذت رہتی ہے؛ اگر ایزد صبح کوئی در بند کرتا ہے تو شام کے وقت کھول دیتا ہے۔
اے صائب! روزہ سینوں کو ہوس سے پاک کرتا ہے اور امساک کی آتش سے خام تمنائیں جل جاتی ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top