ناز خیالوی ""سرِ میدانِ کربل لاشئہ شبیر کے ٹکڑے"" نازؔ خیالوی

سرِ میدانِ کربل لاشئہ شبیر کے ٹکڑے
جو دیکھے تو ہوئے کیا کیا دلِ ہمشیر کے ٹکڑے

رُلایا ہے لہو مختار نے مجبور کو اکثر
کیے ہیں بارہا تقدیر نے تدبیر کے ٹکڑے

وہاں ملتی نہیں اب نام کو بھی کوئی رنگینی
کبھی جنت نشاں تھے وادئ کشمیر کے ٹکڑے

ذرا کچھ زلزلہ آیا غمِ حالات کا دل میں
ہوئے دیوار سے گِر کر تِری تصویر کے ٹکڑے

کیے ہیں کتنی بیدردی سے کچھ سفّاک لوگوں نے
قلندر کے مقدس خواب کی تعبیر کے ٹکڑے
نازؔ خیالوی
 
Top