امیر مینائی سرِ راہِ عدم گورِ غربياں طرفہ بستي ہے - امیر مینائی

فرخ منظور

لائبریرین
سرِ راہِ عدم گورِ غربياں طرفہ بستي ہے
کہيں غربت برستي ہے کہيں حسرت برستي ہے

تري مسجد ميں واعظ، خاص ھيں اوقات رحمت کے
ھمارے ميکدے ميں رات دن رحمت برستي ہے

خمارِ نشّہ سے نگاہيں ان کي کہتي ہيں
يہاں کيا کام تيرا، يہ تو متوالوں کي بستي ہے

جواني لے گئي ساتہ اپنے سارا عيش مستوں کا
صراحي ہے نہ شيشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستي ہے

ہمارے گھر ميں جس دن ہوتي ہے اس حور کي آمد
چھپر کھٹ کو پري آکر پري خانے سے کستي ہے

چلے نالے ہمارے يہ زبان حال سے کہہ کر
ٹھہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمّت کي پستي ہے

امير اس راستے سے جو گزرتے ھيں وہ لٹتے ہيں
محلہ ہے حسينوں کا، کہ قزاقوں کي بستي ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
واہ!‌بہت خوب فرخ صاحب! میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کے دستخط میں ذیل کی سطر کا اضافہ ہوا ہی چاہتا ہے:
"انتخابِ امیر مینائی"
مجھے اس غزل کا مقطع پڑھ کر اپنا ایک شعر یاد آ گیا:

امير اس راستے سے جو گزرتے ھيں وہ لٹتے ہيں
محلہ ہے حسينوں کا، کہ قزاقوں کي بستي ہے؟

دیارِ شوق میں رکھنا قدم، سنبھل کے بشیر
یہاں سے بچ کے کبھی کارواں نہیں گزرے
 
Top