سرد صحرا کا بار سر پر ہے

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور تازہ غزل برائے اصلاح و رائے عرض ہے۔

سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے

چھوڑ جاتا جہان یہ لیکن
اپنے بچوں کا پیار سر پر ہے

شہر سارا ہوا ہے مقتل آج
ایک تختہءِ دار سر پر ہے

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
خنجرِ تیز دھار سر پر ہے

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار ہے سر پر

محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے

اس سے نمٹوں تو آگے نکلوں میں
اک گھٹا اشکبار سر پر ہے

پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب راجا بھائی!

اصلاح کا کام تو اساتذہ کا ہے لیکن مجھے یہ شعر خوب لگے۔

سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار ہے سر پر

محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے

پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے

داد حاضر ہے ۔ خوش رہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
لو آض ہی نمٹا دیا ہے اس کو۔۔۔۔۔

سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے
//الفاظ تو اچھے ہیں لیکن کیا کہنا چاہ رہے ہو، میری بدھی میں تو گھسا نہیں!! خمار سر پر تو نہیں ہوتا، آنکھوں ’میں‘ ہوتا ہے، صحرا سرد کیوںَ عام طور پر گرم ہوتا ہے۔

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
//پہلا مصرع واہ، کیا روانی ہے، لیکن دسرا مصرع، کسی بھی شعر میں فٹ کر دو تو لوگ کچھ نہ کچھ مطلب نکال ہی لیں گے۔
پکار بھی سر پر ہے؟

چھوڑ جاتا جہان یہ لیکن
اپنے بچوں کا پیار سر پر ہے
//ہاں، یہ شعر درست ہے، یہاں سر پر درست ہے، کہ مراد ’سایہ‘ ہے، بچوں کا پیار سایہ فگن ہے، البتہ پہلے مصرع کی روانی دوسرے کے برابر کرنا ضروری ہے۔ فارسی جہان ، جسے عام طور پر جہاں کہا جاتا ہے، گڑبڑ کر رہا ہے۔ دنیا میں کیا قباحت ہے؟
جیسے
میں تو دنیا ہی چھوڑ جاؤں مگر

شہر سارا ہوا ہے مقتل آج
ایک تختہءِ دار سر پر ہے
//یہاں ردیف درست ہے، دار سر پر اٹھائی جاتی ہے اور جلاد کے پاس مقتول جاتا ہے۔ لیکن ’تختائے‘ وزن میں آتا ہے، یہ تلفظ غلط ہے۔ ویسے بھی محض ’دار‘ کافی ہے
شہر سارا بنا ہے مقتل آج
کہا جائے تو بہتر ہے، اور دوسرا مصرع
جس کو دیکھو،کہ دار سر پر ہے
کیا جا سکتا ہے۔

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
خنجرِ تیز دھار سر پر ہے
//یہاں بھی ایک تو ردیف غلط ہے۔ اور دوسرے ہندی اردو کا مکسچر ہو گیا ہے اضافت میں، تیز دھار ہندی ہے، اس کے ساتھ فارسی اضافت نہیں آ سکتی۔ ہاں ’نیزے کی تیز دھار‘ ہو سکتا ہے، لیکن نیزہ سر پر نہیں ہوتا، مارنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کا نشانہ سینہ ہی ہوتا ہے، کوئی سر کا نشانہ لیتا ہے؟ یہاں بھی دونوں مصرعوں میں تطابق کی کمی ہے، حالانکہ دونوں مصرع (درست حالت میں) اچھے ہیں۔

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
//یہاں ردیف درست ہے، کرگس سروں پر ہی پہلے ٹھونگ مارتے ہیں۔ شعر درست ہے، اگرچہ لمبی قطار ذرا گڑبڑ کرتی ہے، مگر چل بھی سکتی ہے۔ گڑبڑ اس لئے کہ کرگس ایک کے اوپر ایک ہیں قطار باندھے ہوئے سر پر کہ ان کا جمگھٹ ہے، جو قطار نہیں ہوتی۔

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار سر پر ہے
// اس شعر کی تفہیم بھی نہیں ہوئی۔ اس لئے فی الحال کچھ نہیں۔

محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے
// یہاں بھی وہی غلطی ہے، سوچ ہندی ہے، فارسی اضافت کے ساتھ نہیں آ سکتا۔ ہاں، فکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوی دونوں مصرعوں میں تعلق؟

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
//یہاں بھی ردیف غلط ہے، ویسے کیا منظر کشی کر رہے ہو، کیا یہ منظر ہے کہ جیسے جیسے منزل سے قریب ہوتا ہوں، کانٹے نکلتے جاتے ہیں، تو یہ لگے کب تھے؟ لوگوں کے تو خار چبھتے ہیں منزل کی طرف چلتے وقت، یہ الٹی بات کیسی؟

اس سے نمٹوں تو آگے نکلوں میں
اک گھٹا اشکبار سر پر ہے
//درست ہو سکتا ہے، اگرچہ بیانیہ عجیب ہے، گھٹا اشکبار، یہ کون سی گھٹا ہے، سر پر جو گھٹا ہوتی ہے، وہ تو بارش ہی کرتی ہے۔ اشک بار گھٹا آنکھوں میں ہو سکتی ہے، کہ آنکھوں سے اشکوں کی برسات ہو۔ یا واقعی مطلب یہی ہے کہ ذرا موسم بہتر ہو لے، بارش ختم ہو جائے تو میں نکلوں؟؟؟

پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے
//درست، پہلا مصرع مزید بہتر ہو سکتا ہے۔’پار کرنا‘ بدل دو، جب سر پر ہے تو پار کرنا کس طرح ممکن ہے؟
جیسے:
کیسے نمٹوں گا اس سے میں راجا
مجموعی طور پر تم نے یہاں جدت کے چکر میں یہ گڑبڑ کی ہے کہ زمین ایسی چن لی ہے جس میں کئی اشعار میں ردیف درست نہیں آ سکی ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب راجا بھائی!

اصلاح کا کام تو اساتذہ کا ہے لیکن مجھے یہ شعر خوب لگے۔

سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار ہے سر پر

محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے

پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے

داد حاضر ہے ۔ خوش رہیے۔

بہت شکریہ محمد احمد بھائی۔
 

ایم اے راجا

محفلین
لو آض ہی نمٹا دیا ہے اس کو۔۔۔۔۔

سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے
//الفاظ تو اچھے ہیں لیکن کیا کہنا چاہ رہے ہو، میری بدھی میں تو گھسا نہیں!! خمار سر پر تو نہیں ہوتا، آنکھوں ’میں‘ ہوتا ہے، صحرا سرد کیوںَ عام طور پر گرم ہوتا ہے۔

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
//پہلا مصرع واہ، کیا روانی ہے، لیکن دسرا مصرع، کسی بھی شعر میں فٹ کر دو تو لوگ کچھ نہ کچھ مطلب نکال ہی لیں گے۔
پکار بھی سر پر ہے؟

چھوڑ جاتا جہان یہ لیکن
اپنے بچوں کا پیار سر پر ہے
//ہاں، یہ شعر درست ہے، یہاں سر پر درست ہے، کہ مراد ’سایہ‘ ہے، بچوں کا پیار سایہ فگن ہے، البتہ پہلے مصرع کی روانی دوسرے کے برابر کرنا ضروری ہے۔ فارسی جہان ، جسے عام طور پر جہاں کہا جاتا ہے، گڑبڑ کر رہا ہے۔ دنیا میں کیا قباحت ہے؟
جیسے
میں تو دنیا ہی چھوڑ جاؤں مگر

شہر سارا ہوا ہے مقتل آج
ایک تختہءِ دار سر پر ہے
//یہاں ردیف درست ہے، دار سر پر اٹھائی جاتی ہے اور جلاد کے پاس مقتول جاتا ہے۔ لیکن ’تختائے‘ وزن میں آتا ہے، یہ تلفظ غلط ہے۔ ویسے بھی محض ’دار‘ کافی ہے
شہر سارا بنا ہے مقتل آج
کہا جائے تو بہتر ہے، اور دوسرا مصرع
جس کو دیکھو،کہ دار سر پر ہے
کیا جا سکتا ہے۔

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
خنجرِ تیز دھار سر پر ہے
//یہاں بھی ایک تو ردیف غلط ہے۔ اور دوسرے ہندی اردو کا مکسچر ہو گیا ہے اضافت میں، تیز دھار ہندی ہے، اس کے ساتھ فارسی اضافت نہیں آ سکتی۔ ہاں ’نیزے کی تیز دھار‘ ہو سکتا ہے، لیکن نیزہ سر پر نہیں ہوتا، مارنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کا نشانہ سینہ ہی ہوتا ہے، کوئی سر کا نشانہ لیتا ہے؟ یہاں بھی دونوں مصرعوں میں تطابق کی کمی ہے، حالانکہ دونوں مصرع (درست حالت میں) اچھے ہیں۔

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
//یہاں ردیف درست ہے، کرگس سروں پر ہی پہلے ٹھونگ مارتے ہیں۔ شعر درست ہے، اگرچہ لمبی قطار ذرا گڑبڑ کرتی ہے، مگر چل بھی سکتی ہے۔ گڑبڑ اس لئے کہ کرگس ایک کے اوپر ایک ہیں قطار باندھے ہوئے سر پر کہ ان کا جمگھٹ ہے، جو قطار نہیں ہوتی۔

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار سر پر ہے
// اس شعر کی تفہیم بھی نہیں ہوئی۔ اس لئے فی الحال کچھ نہیں۔

محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے
// یہاں بھی وہی غلطی ہے، سوچ ہندی ہے، فارسی اضافت کے ساتھ نہیں آ سکتا۔ ہاں، فکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوی دونوں مصرعوں میں تعلق؟

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
//یہاں بھی ردیف غلط ہے، ویسے کیا منظر کشی کر رہے ہو، کیا یہ منظر ہے کہ جیسے جیسے منزل سے قریب ہوتا ہوں، کانٹے نکلتے جاتے ہیں، تو یہ لگے کب تھے؟ لوگوں کے تو خار چبھتے ہیں منزل کی طرف چلتے وقت، یہ الٹی بات کیسی؟

اس سے نمٹوں تو آگے نکلوں میں
اک گھٹا اشکبار سر پر ہے
//درست ہو سکتا ہے، اگرچہ بیانیہ عجیب ہے، گھٹا اشکبار، یہ کون سی گھٹا ہے، سر پر جو گھٹا ہوتی ہے، وہ تو بارش ہی کرتی ہے۔ اشک بار گھٹا آنکھوں میں ہو سکتی ہے، کہ آنکھوں سے اشکوں کی برسات ہو۔ یا واقعی مطلب یہی ہے کہ ذرا موسم بہتر ہو لے، بارش ختم ہو جائے تو میں نکلوں؟؟؟

پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے
//درست، پہلا مصرع مزید بہتر ہو سکتا ہے۔’پار کرنا‘ بدل دو، جب سر پر ہے تو پار کرنا کس طرح ممکن ہے؟
جیسے:
کیسے نمٹوں گا اس سے میں راجا
مجموعی طور پر تم نے یہاں جدت کے چکر میں یہ گڑبڑ کی ہے کہ زمین ایسی چن لی ہے جس میں کئی اشعار میں ردیف درست نہیں آ سکی ہے۔

شکریہ سر میں دوبارہ دیکھتا ہوں حالانکہ اس پر بہت سر کھپایا ہے، زمین شاید مشکل ہاتھ لگ گئی ہے، جدت لانا وجہ نہیں تھی بلکہ ایک خیال کا تواتر تھا جسے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر مجھے خوشی ہیکہ میں کافی حد تک کاماب رہا ہوں آپکی دعا سے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
محترم استاد درج بالا غزل کو کچھ تبدل کیا ہے کہاں تک کامیاب رہا ہوں ذرا دیکھیئے۔

دشتِ ویراں کا بار سر پر ہے
تشنگی بے قرار سر پر ہے

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے

چھوڑ جاؤں جہان یہ لیکن
اپنے بچوں پیار سر پر ہے

شہر سارا بنا ہے مقتل آج
ایک تختائے دار سر پر ہے

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
تیغ اک تیز دھار سر پر ہے

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
بھوک کا کچھ خمار سر پر ہے

کاش بدلے وہ سوچ کا محور
موسمِ گل بہار سر پر ہے

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے

اس سے نمٹوں تو پھر چلوں آگے
جو گھٹا اشکبار سر پر ہے

پار کیسے بھلا کروں راجا
درد کا ریگزار سر پر ہے
 

الف عین

لائبریرین
اوہو یہ میں نے نہیں دیکھا کہ کچھ تصحیح کر دی ہے۔ اس کو بھی کاپی کرتا ہوں، اور پہلے جو کہا تھا، اس سے مقابلہ کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
دشتِ ویراں کا بار سر پر ہے
تشنگی بے قرار سر پر ہے
// چل سکتا ہے، دوسرے مصرع سے ابھی بھی مطمئن نہیں،

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
//لکھ چکا ہوں کہ منزلوں کی پکار اور آبلہ پائی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ پکار تو سر پر نہیں ہوتی۔

چھوڑ جاؤں جہان یہ لیکن
اپنے بچوں پیار سر پر ہے
//اس پر بات ہو چکی ہے۔

شہر سارا بنا ہے مقتل آج
ایک تختائے دار سر پر ہے
// ایضاً

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
تیغ اک تیز دھار سر پر ہے
// ہاں اب یہ شعر درست ہو گیا ہے، تیغ سر پر بھی ہوتی ہے محاورے میں۔ کربلا مذکر ہے یا مؤنث؟

کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
//بات ہو چکی

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
بھوک کا کچھ خمار سر پر ہے
// اب دوسرا مصرع بدل دیا ہے، لیکن وہی بات کہ خمار سر پر کب ہوتا ہے، آنکھوں میں ہوتا ہے!

کاش بدلے وہ سوچ کا محور
موسمِ گل بہار سر پر ہے
//دونوں مصرعوں میں تعلق؟

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
اس سے نمٹوں تو پھر چلوں آگے
جو گھٹا اشکبار سر پر ہے
پار کیسے بھلا کروں راجا
درد کا ریگزار سر پر ہے
// ان تینوں اشعار پر بھی بات ہو چکی۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ایم اے راجہ جی
گہری نگاہ اور سوچ کی حامل لگی یہ غزل
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
 

ایم اے راجا

محفلین
دشتِ ویراں کا بار سر پر ہے
تشنگی بے قرار سر پر ہے
// چل سکتا ہے، دوسرے مصرع سے ابھی بھی مطمئن نہیں، ( سر اس سے مراد ( مصرعہ ثانی) پیاس بے قرار ہے بجھنے کے لیئے میں اسے سر اور دماغ پر بجھانے کیلیئے سوار کیئے پھرتا ہوں، جیسے کے ہم کہتے ہیں، فلاں کا یہ مسئلہ یا فلاں ضروری کام میرے سر پر سوار ہے، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہیکہ پیاس سر پر سوار ہے جسے بجھانے کے سوا کوئی کام مجھے سوجھتا ہی نہیں)

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
//لکھ چکا ہوں کہ منزلوں کی پکار اور آبلہ پائی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ پکار تو سر پر نہیں ہوتی۔ ( اس سے مراد ہیکہ میں اتنا مجبور ہوں آبلہ پائی سے کہ چلنے کی ہمت نہیں ہے مگر منزلوں کی پکار ہیکہ مجھے چلنے کے لیئے مجبور کیئے ہوئے ہے، منزلوں کی پکار میرے سر پر سوار ہے)

چھوڑ جاؤں جہان یہ لیکن
اپنے بچوں پیار سر پر ہے
//اس پر بات ہو چکی ہے۔

شہر سارا بنا ہے مقتل آج
ایک تختائے دار سر پر ہے
// ایضاً

کربلا سا بپا ہے ہر جانب
تیغ اک تیز دھار سر پر ہے
// ہاں اب یہ شعر درست ہو گیا ہے، تیغ سر پر بھی ہوتی ہے محاورے میں۔ کربلا مذکر ہے یا مؤنث؟ ( یہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کربلا مذکر ہے یا مؤنث، کیا کربلا مؤنث ہے!)
کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
//بات ہو چکی

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
بھوک کا کچھ خمار سر پر ہے
// اب دوسرا مصرع بدل دیا ہے، لیکن وہی بات کہ خمار سر پر کب ہوتا ہے، آنکھوں میں ہوتا ہے! ( خمار سے مراد غنودگی بھی لیا جاسکتا ہے، کیا خمار دماغ پر نہیں ہوتا، جیسے ہم کہتے ہیں جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، جادو بھی ایک خمار ہے، ایک غنودگی ہے اسی طرح خمار اور غنودگی ( نیند وغیرہ) دماغ کو جکڑتی ہے، بھوک سے ایک کمزوری پیدا ہوتی ہے جو کہ پہلے سر ودماغ کو جکڑتی ہے بعد میں آنکھوں کو جکڑ کر انہیں بند ہونے پر مجبور کرتی ہے)

کاش بدلے وہ سوچ کا محور
موسمِ گل بہار سر پر ہے
//دونوں مصرعوں میں تعلق؟ ( اس مراد ہیکہ اب وہ خزاؤں والی سوچ بُری سوچ تبدیل کر لے، بہاروں کا موسم اچھا وقت آنے کو ہے)

آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
اس سے نمٹوں تو پھر چلوں آگے
جو گھٹا اشکبار سر پر ہے
پار کیسے بھلا کروں راجا
درد کا ریگزار سر پر ہے
// ان تینوں اشعار پر بھی بات ہو چکی۔
 

الف عین

لائبریرین
دشتِ ویراں کا بار سر پر ہے
تشنگی بے قرار سر پر ہے
// چل سکتا ہے، دوسرے مصرع سے ابھی بھی مطمئن نہیں، ( سر اس سے مراد ( مصرعہ ثانی) پیاس بے قرار ہے بجھنے کے لیئے میں اسے سر اور دماغ پر بجھانے کیلیئے سوار کیئے پھرتا ہوں، جیسے کے ہم کہتے ہیں، فلاں کا یہ مسئلہ یا فلاں ضروری کام میرے سر پر سوار ہے، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہیکہ پیاس سر پر سوار ہے جسے بجھانے کے سوا کوئی کام مجھے سوجھتا ہی نہیں)
ٹھیک ہے مان لیا جا سکتا ہے، لیکن تم ہر جگہ وضاحت کے لئے موجود رہو گے؟

آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
//لکھ چکا ہوں کہ منزلوں کی پکار اور آبلہ پائی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ پکار تو سر پر نہیں ہوتی۔ ( اس سے مراد ہیکہ میں اتنا مجبور ہوں آبلہ پائی سے کہ چلنے کی ہمت نہیں ہے مگر منزلوں کی پکار ہیکہ مجھے چلنے کے لیئے مجبور کیئے ہوئے ہے، منزلوں کی پکار میرے سر پر سوار ہے)
لیکن پہلے مصرع سے یہ مطلب نہیں نکلتا۔ اور ان معنوں میں ’آج لیکن‘ اور منزلوں کی پکار کا بیانیہ یہ مطلب نکلنے نہیں دیتا۔ یوں کہا جائے کہ آبلہ پائی چلنے نہیں دیتی اور دوسری طرف منزلوں کی پکار سر پر ہے۔جیسے
آبلہ پا ہوں اس طرف میں، اور
منزلوں کی پکار۔۔۔۔۔


کربلا سا بپا ہے ہر جانب
تیغ اک تیز دھار سر پر ہے
// ہاں اب یہ شعر درست ہو گیا ہے، تیغ سر پر بھی ہوتی ہے محاورے میں۔ کربلا مذکر ہے یا مؤنث؟ ( یہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کربلا مذکر ہے یا مؤنث، کیا کربلا مؤنث ہے!)
کربلا بطور مقام تو مؤنث ہے، لیکن یہاں ’کربلا بپا ہے‘[ سے کیا مطلب ہے، یہ واضح نہیں، شور، قتل، محشر مذکر ہیں، غارت گری، قیامت وغیرہ مؤنث۔ بہر حال اگر محض اسم کے طور پر مؤنث مانا جائے تو ’کربلا ’سی‘ بپا ہے‘ درست ہو سکتا ہے۔ /COLOR]

درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
بھوک کا کچھ خمار سر پر ہے
// اب دوسرا مصرع بدل دیا ہے، لیکن وہی بات کہ خمار سر پر کب ہوتا ہے، آنکھوں میں ہوتا ہے! ( خمار سے مراد غنودگی بھی لیا جاسکتا ہے، کیا خمار دماغ پر نہیں ہوتا، جیسے ہم کہتے ہیں جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، جادو بھی ایک خمار ہے، ایک غنودگی ہے اسی طرح خمار اور غنودگی ( نیند وغیرہ) دماغ کو جکڑتی ہے، بھوک سے ایک کمزوری پیدا ہوتی ہے جو کہ پہلے سر ودماغ کو جکڑتی ہے بعد میں آنکھوں کو جکڑ کر انہیں بند ہونے پر مجبور کرتی ہے)
نہیں راجا، اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوں۔ خمار غنودگی نہیں نشہ ہوتا ہے۔
کاش بدلے وہ سوچ کا محور
موسمِ گل بہار سر پر ہے
//دونوں مصرعوں میں تعلق؟ ( اس مراد ہیکہ اب وہ خزاؤں والی سوچ بُری سوچ تبدیل کر لے، بہاروں کا موسم اچھا وقت آنے کو ہے)
ٹھیک ہے بھائی اس کو مانا جا سکتا ہے۔
 
Top