سحر انصاری،،نظم،، دیمک

بنگش

محفلین
کتابوں کی دشمن
کتابوں کی دشمن بھی ایسی کہ لفظوں کے رشتوں کو یکسر مٹادے
غنیموں کے لشکر کی جاسوس بن کر
فصیلوں کے ہمراہ شہروں کو ڈھانے کے سب گر بتادے
تو یوں ہو کہ سنسان ہو جائیں سب سانس لیتی ہوئ بستیاں ایک پل میں

خداوندِ حرف و معانی کے بیدار کاہن
جو لفظوں کے معبد میں آنکھوں کی شمعیں جلائے
ہر نو شتے کی تقدیر سے با خبر ہیں
کس افسردگی سے اپنی نگاہوں کو روداد ساری سناتے ہیں، دیکھو
یہاں سارے صفحے مرصع تھے پہلے
یہاں جدولیں تھيں طلائ
یہاں ہر ورق سحرِ شنگرف سے جگمگاتا تھا مانند دستِ حنائ
جہاں آج بنجر زمینوں کی وحشت برسنے لگی ہے
جہاں اب مشام وفا حرف کی نکہتوں کو ترسنے لگی ہے
وہاں خطِ گلزارو طاؤ س کے موسموں کا گزر تھا
یہ پس خوردہ و مسخ اوراق اک تازیانہ سوالات کا ہیں
خداوندِ لو ح و قلم ہی بتائے
کہ تاراجئ ء لفظ و قرطاس کیسا ہنر ہے
کتابوں میں مٹی کے گھر آکے تعمیر کرنے کا فن
عظمتِ حرف و تقدیسِ معنی سے کیوں بے خبر ہے
 
Top