اصغر گونڈوی ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی ۔ اصغر گونڈوی

فرخ منظور

لائبریرین
ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی

نمود جلوہء بے رنگ سے ہوش اس قدر گُم ہیں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

پتہ ملتا نہیں اب آتشِ وادیء ایمن کا
مگر مینائے مے کی نور افشانی نہیں جاتی

مگر اک مشتِ پر کی خاک سے کچھ ربط باقی ہے
ابھی تک شاخِ گل کی شعلہ افشانی نہیں جاتی

چمن میں چھیڑتی ہے کس مزے سے غنچہ و گُل کو
مگر موجِ صبا کی پاک دامانی نہیں جاتی

اڑا دیتا ہوں اب بھی تار تارِ ہست و بود اصغر
لباسِ زہد و تمکیں پر بھی عریانی نہیں‌جاتی


از اصغر گونڈوی
 

جیہ

لائبریرین
اچھی غزل ہے مگر کیا کروں غالب نے ذوق بگاڑا ہے

یہ شعر خوب ہے

ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی غزل ہے مگر کیا کروں غالب نے ذوق بگاڑا ہے

یہ شعر خوب ہے

ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی

غالب نے ہمارا ذوق بھی بہت بگاڑا ہے لیکن کیا کریں اب ہر بار غالب کی غزل پوسٹ نہیں کی جا سکتی۔ :)
لیکن اصغر کے ہاں بہت سی تراکیب غالب سے ہی مستعار لی گئی ہیں۔ جیسے فتنہ سامانی، طلسمِ تمنا، واماندگی، ذوقِ تماشا، نوبہارِ ناز وغیرہ۔
 

جیہ

لائبریرین
یوں کہیں کہ ان کے مشکل تراکیب لیں مگر افسوس غالب کی معنی آفرینی نہ لے سکے ۔ ویسے اصغر کی شاعری اچھی ہے ۔ شاید اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث کی رائے زیادہ صائب ہوگی۔ ان سے پوچھتے ہیں

شکریہ جیہ، خاکسار کو یاد کرنے کیلیے :)

مولانا سید اصغر حسین گونڈوی کے استاد ہونے کے بارے میں تو یہی لکھنا کافی ہے کہ آپ جگر مراد آبادی کے استاد تھے اور انکی تعمیر میں اصغر گونڈوی کا بہت ہاتھ ہے یہ الگ بات کہ مولانا کا زہد و تقویٰ بھی جگر کو رندی اور شاہد بازی سے باز نہ رکھ سکا :)

اصغر گونڈوی کی شاعری اس عہد کی شعری روایات کے مطابق ہے اور گو وہ بہت شہرت نہ حاصل کر سکے لیکن انکے کلام میں چاشنی ہے، تغزل ہے، متانت اور سنجیدگی ہے۔ آپ نے کسی بھی اسکول یا مدرسے میں تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن ذوق و شوق سے عربی، فارسی اور انگریزی میں کافی قابلیت حاصل کر لی تھی۔ آپ ہندوستان اکیڈمی کے رسالہ ہندوستان کے مدیر بھی رہے۔ درویشِ باصفا اصغر گونڈوی کو تصوف سے بھی خاص لگاؤ تھا۔
 

جیہ

لائبریرین
اس خاک پائے نے کسی خاکسار کو یاد نہیں کیا تھا بلکہ اس عظیم شخصیت کو یاد کیا تھا جن کے محفل پر آنے سے میری علمیت کا پول کھل گیا تھا:)

شکری وارث‌ یعنی کہ وہ واقعی استاد تھے۔ آپ کے وقیع پوسٹ سے میری معلومات میں اضآفہ ہوا
 

محمد وارث

لائبریرین
اس خاک پائے نے کسی خاکسار کو یاد نہیں کیا تھا بلکہ اس عظیم شخصیت کو یاد کیا تھا جن کے محفل پر آنے سے میری علمیت کا پول کھل گیا تھا:)

شکری وارث‌ یعنی کہ وہ واقعی استاد تھے۔ آپ کے وقیع پوسٹ سے میری معلومات میں اضآفہ ہوا

لا حول و لا قوۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں کی شخصیت اور کیسی عظمت :)



وارث صاحب یہ بھی بتاتے چلیں کہ کون کونسے شعرا کا اساتذہ میں شمار ہوتا ہے۔

میرے خیال میں اسکی کوئی ڈگری تو ہے نہیں :) کہ ایک موضوعی معاملہ ہے، ہاں مسلمہ یہی ہے کم از کم شاعری کے حوالے سے کہ جس شخص کی شعری حیثیت مسلمہ ہو اور اس نے اپنی زندگی شعر و فن کی خدمت و آبیاری میں گزاری ہو اور باقاعدہ طور پر شاگردوں کو اصلاح بھی دی ہو، اور ایک زمانہ بھی ان کی استادی کا لوہا مانتا ہو، استاد سمجھا جاتا ہے۔ کم از کم میرے ذہن میں تو یہی ہے یا یہی آیا ہے باقی جیسے آپ ارشاد فرمائیں آمناً و صدقاً :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں اسکی کوئی ڈگری تو ہے نہیں :) کہ ایک موضوعی معاملہ ہے، ہاں مسلمہ یہی ہے کم از کم شاعری کے حوالے سے کہ جس شخص کی شعری حیثیت مسلمہ ہو اور اس نے اپنی زندگی شعر و فن کی خدمت و آبیاری میں گزاری ہو اور باقاعدہ طور پر شاگردوں کو اصلاح بھی دی ہو، اور ایک زمانہ بھی ان کی استادی کا لوہا مانتا ہو، استاد سمجھا جاتا ہے۔ کم از کم میرے ذہن میں تو یہی ہے یا یہی آیا ہے باقی جیسے آپ ارشاد فرمائیں آمناً و صدقاً :)

وارث صاحب۔ اردو شاعری میں متفقہ طور پر کچھ کلاسیکی شعرا کو اساتذہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ جن میں تین کا علم تو مجھے ہے۔ یعنی جب کہا جاتا ہے کہ غالب کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے تو اس میں کچھ مخصوص شعرا شامل ہیں۔ جن میں میر، غالب، سودا کا تو مجھے علم ہے، باقی کے شعرا کے ناموں کا مجھے علم نہیں۔ شاید آتش اور ذوق بھی اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور اگر آپ والا معیار رکھیں تو ان میں تو لاتعداد شعرا کے نام شامل ہو جائیں گے۔ اسی حوالے سے میں نے کہا تھا کہ اصغر گونڈوی کو شاید اساتذہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔
 

عمران خان

محفلین
نمود جلوہء بے رنگ سے ہوش اس قدر گُم ہیں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی



بہت خوب جی۔۔۔اچھی شیئرنگ ہے فرٌخ بھائی
 

فرخ منظور

لائبریرین
نمود جلوہء بے رنگ سے ہوش اس قدر گُم ہیں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی



بہت خوب جی۔۔۔اچھی شیئرنگ ہے فرٌخ بھائی

بہت بہت شکریہ عمران بھائی۔ آپ کا کلیاتِ اسماعیل کو کمپوز کرنے کا بھی بہت شکریہ جناب!
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب۔ اردو شاعری میں متفقہ طور پر کچھ کلاسیکی شعرا کو اساتذہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ جن میں تین کا علم تو مجھے ہے۔ یعنی جب کہا جاتا ہے کہ غالب کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے تو اس میں کچھ مخصوص شعرا شامل ہیں۔ جن میں میر، غالب، سودا کا تو مجھے علم ہے، باقی کے شعرا کے ناموں کا مجھے علم نہیں۔ شاید آتش اور ذوق بھی اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور اگر آپ والا معیار رکھیں تو ان میں تو لاتعداد شعرا کے نام شامل ہو جائیں گے۔ اسی حوالے سے میں نے کہا تھا کہ اصغر گونڈوی کو شاید اساتذہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔


اجی قبلہ جن تین کا آپ نے نام لیا ہے ان میں دو تو "خدائے سخن" کہلواتے ہیں اور تیسرا اپنے آپ کو سمجھتا تھا :)

اتنی بہت زیادہ تعداد بھی نہی ہے اساتذہ کی، اردو شاعری کی (اندازاً) تین سو سالہ تاریخ کو دیکھیں تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد نے شاعری کی ہوگی لیکن اگر اساتذہ کی ایک فہرست بنائیں تو گنتی شاید بمشکل تین ہندسوں تک پہنچے!

محمد طفیل صاحب نے 1954ء نقوش کا ایک غزل نمبر شائع کیا تھا جو 1985ء میں اضافے کے ساتھ دوبارہ شائع ہوا، اسکی تقسیم انہوں نے اسطرح سے کی ہے۔

اساتذۂ غزل
متغزلینِ جدید
اساتذۂ غزل (2)
متغزلینِ جدید (2)
غزلِ قدیم
غزلِ جدید
مینائے غزل
اختتامیہ

"اساتذۂ غزل" کے حصے میں انہوں نے 35 اساتذہ کا کلام دیا ہے جن میں، ولی، میر، سودا، درد، مصحفی، میر حسن، جرأت، انشاء، نظیر اکبر آبادی، غالب، مومن، ذوق، ظفر، شیفتہ، ناسخ، آتش، امیر، داغ، حالی، اکبر الہ آبادی، شاد عظیم آبادی، ریاض خیر آبادی، آزاد انصاری، آرزو لکھنوی، اقبال، حسرت، اصغر گونڈوی، فانی، جگر، جوش، فراق، حفیظ جالندھری، یگانہ، سیماب اکبر آبادی اور اثر لکھنوی شامل ہیں!

اور واقعی یہ ایسے نام ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں استاد کا درجہ رکھتے تھے اور ایک زمانہ انکی برزگی اور استادی کو نہ صرف مانتا تھا بلکہ مانتا ہے اور جب تک غزل ہے، مانتا رہے گا، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کچھ شہرت کے آسمان پر براجمان ہیں اور کچھ خاک میں مل کر خاکسار ہوئے!
 
ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی​
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی​
نمود جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گُم ہیں​
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی​
پتہ ملتا نہیں اب آتشِ وادیِ ایمن کا​
مگر مینائے مے کی نور افشانی نہیں جاتی​
مگر اک مشتِ پر کی خاک سے کچھ ربط باقی ہے​
ابھی تک شاخِ گل کی شعلہ افشانی نہیں جاتی​
چمن میں چھیڑتی ہے کس مزے سے غنچہ و گُل کو​
مگر موجِ صبا کی پاک دامانی نہیں جاتی​
اڑا دیتا ہوں اب بھی تار تارِ ہست و بود اصغر​
لباسِ زہد و تمکیں پر بھی عریانی نہیں‌ جاتی​
 

طارق شاہ

محفلین
سبحان الله!

ناصر صاحب
کیا خُوب کلامِ اصغر گونڈوی میں شریکِ لطف کِیا آپ نے
تشکّرشیئر کرنے پر۔

بہت خوش رہیں
 
Top