سترویں ترمیم ایک اور ترمیم کی منتظر زبیر احمد ظہیر

امکانات

محفلین
کیا اٹھارویں ترمیم ہو پائے گی؟

زبیرا حمد ظہیر

پاکستان میں پارلیمانی روایات کب قائم ہونگی؟ پاکستان دنیا کا عجیب جمہوری ملک ہے جس کی کوئی پارلیمانی روایت نہیں ' برطانوی پارلیمنٹ اور اس کا آدھا قانون روایات کے تحت صدیوں سے چلا آرہا ہے ' ایک پاکستان ہے کہ اونٹ کی طرح اس کی سیاست کی کوئی ایک کل بھی سیدھی نہیں۔ صدر آصف علی زرداری کو دیکھ لیں ایک پارٹی کے شریک چیئر مین ہیں۔ پارلیمانی جمہوری روایات میں صدر کا منصب پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوتا ہے۔ صدر وفاق کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے عہدے پرصدر کو پارٹی وابستگی سے واضح طور پر علیحدہ ہونا پڑتا ہے لیکن وہ صدارت سے بھی چمٹے ہوئے ہیں اور پی پی کی قیادت سے بھی جڑے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا وہ کسی ملک کے صدر نہیں بلکہ کسی ایک پارٹی کے صدر ہیں

دوسری ستم ظریفی یہ ہے58 ٹو بی کی تلوار بھی وہ اپنی نیام میں رکھے ہوئے ہیں سترہویں ترمیم کے آمرانہ ثمرات کے تمام فوائد بھی وہ سمیٹ رہے ہے ہیںجس سے پارلیمانی نظام میں صدر اور وزیراعظم کے مابین اختیارات کا توازن بگڑ کر رہ گیاہے ۔ جب وزیراعظم اور صدر کے انتہائی اہم مناسب کے اختیارات کا توازن بگڑ جائے تو اس سے اختلافات جنم لیتے ہیں جب یہ اختلافات جنم لینے لگیں تو حکومتوں کو خطروں سے بالا تر نہیں سمجھا جاتا ۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے صدر اور وزیرعظم کے اختلافات نے مضبوط جمہوری حکومتوں کو ڈکارلیے بغیر آسانی سے نگل لیا ۔آج صدر اور وزیر اعظم میں اختلافات کی خبریں گردش کر نے لگی ہیں مگر سچ تو یہ ہے یہ اختلافات اس دن شروع ہو گئے تھے جس دن صدر آصف علی زرداری نے پی پی کی قیادت اورسترہویں ترمیم کے اختیارات کے ساتھ صدارت قبول کر لی اور58 ٹو بی پرچپ سادھ لی۔ 58ٹو بی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک ایسی دھکتی آگ ہے جس نے تین حکومتوں کو جلا ڈالا ۔ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے کے مصداق اس85ٹو بی کی تپش کی آنچ آج بھی موجود ہے۔

58 ٹو بی اور وزیراعظم صدر اختلاف کی تاریخ خاصی ہولناک ہے ۔آج تک جتنی حکومتیں ختم ہوئی ہیں آمریت آئی یا جمہوری حکومت رخصت ہوئی اس میں صدر اور وزیراعظم کا کہیں نہ کہیں اختلاف ضرور حکومت اور اسمبلی کے خاتمے کا سبب بنا ۔اب تک تین جمہوری حکومتوںکاخاتمہ58 ٹو بی کی تلوار سے ہو چکا ہے ان حکومتوں کے خاتمے کی ابتداء صدر اور وزیراعظم کے اختلافات سے ہوئی اور اس کا انجام یہ نکلا قومی اسمبلی ہی کو برخواست ہونا پڑا۔ ہمارے آٹے میں نمک برابر جمہوری دور کی یہ خوفناک شکل ہے کہ اس میں سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے اور نواز شریف کی آخری حکومت کہ جن پر آمریت نے قبضہ جمایا باقی تمام جمہوری حکومتوں کا خاتمہ58 ٹو بی سے ہوا۔ اس معاملے کی نزاکت کے پیش نظر روز اول سے صدرزرداری پر 18ویں ترمیم لانے کا دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے (ن) لیگ اور پی پی کی علیحدگی کی جہاں دیگر وجوہات ہیں ان میں سترویں ترمیم اور 58 ٹوبی بھی ایک اہم وجہ ہے جس نے ان دونوں اتحادوں کو پارہ پارہ کر دیا۔ یہ ہی وجہ ہے اب مسلم لیگ (ق) ،(ن) لیگ اور اور متحدہ قومی موومنٹ نے18 ویں ترمیم کے لئے باقاعدہ جدوجہد شروع کر دی ہے ۔اس جدوجہد کے ساتھ اپوزیشن نے رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنی شروع کردی ہے۔حکومت 1سال کے باوجود خاطر خواہ عوامی خدمت نہیں کرسکی ۔اس لئے اس دباؤ کا حکومت پر بڑھ جانا لازمی ہے ۔

اپوزیشن کو اقتدار میں داخل ہونے کا بظاہر کوئی راستہ نہیں مل رہا ۔صدر اور وزیراعظم ایک پارٹی کے ہیں زیادہ سے زیادہ ان کے اختلافات میں وزیراعظم کو جانا پڑے گا ۔اس منظرنامہ کو دیکھ کر اپوزیشن نے صدر کی کمزوری تاڑلی ہے ۔اب صدر مشرف کی وردی کی طرح اپوزیشن58ٹو بی کو بنیاد بنائے گی۔ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ58 ٹو بی کا استعمال حکومت کے خلاف نہیں ہوگا کیونکہ حکومت وزیر اعظم کی نہیں عملاً صدرزرداری کی ہے اسی صورت حال کے ساتھ ساتھ صدر اور وزیراعظم میں اختلافات کی خلیج بڑھنے لگی ہے یہ اختلافات خواہ افواہوں کی شکل میں ہوں اپوزیشن کے لئے حکومت میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا ایسا دروازہ ہیں جس سے اپوزیشن جب چاہے داخل ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ایسے ہی اختلافات کی سزا نوازشریف ایک بار پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔

18 اپریل1993 میں صدرغلام اسحاق خان نے58 ٹوبی کے تحت نواز شریف حکومت بر خاست کردی تھی تو اس میں صدر اور وزیراعظم کے پہلے رونما ہونے والے اختلافات سے اپوزیشن نے خوب فائدہ اٹھایا تھا محترمہ بے نظیر بھٹومرحومہ نے اس موقع پر کمال مہارت سے اپنی سیاسی دور اندیشی سے کام لیااور نواز شریف سے بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور غلام اسحاق خان کو بھی انہوں نے قبل از وقت اپوزیشن کے استعفے جمع کرانے کی پیشکش کر وا دی بعد میں محترمہ کے مذاکرات ن لیگ سے کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے خود کوصدر غلام اسحاق خان کی ضرورت بنالیا ۔غلط فہمیوں کا کیا انجام نکلتا ہے؟ یہ وہ صدر غلام اسحاق خان تھے جنہوں نے بے نظیر حکومت ختم کر دی تھی وہ دلی طورپر نواز شریف کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کا موقع دینے کا سبب بھی صدر غلام اسحاق خان بنے تھے اس سب کچھ کے باوجود کہ محترمہ اور صدر غلام اسحاق خان میں عدم اعتماد کتنا تھا کہ غلام اسحاق کو حکومت ختم کرنی پڑی اس کے باوجود جب نواز شریف اورغلام اسحاق کے اختلافات بڑھے تو ماضی کے دودشمنوں نے نواز شریف کے خلاف دوستی کرلی۔

صدر اور وزیراعظم ایک پارٹی کے بھی ہوں تب بھی ان کے اختلافات حکومت کے خاتمے میںروکاٹ نہیں بن سکتے۔ صدر لغاری کی مثال موجود ہے۔ پاکستان میںجب کبھی صدر اور وزیراعظم کے انتہائی اہم مناصب کو مذاق بنایا گیا تو اس کا انجام حکومت کے خاتموںکی صورت میں نکلا آج 1993جیسی صورت حال ہے صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کے اختلافات پر نواز شریف کی بڑی گہری نظر ہے وہ ان اختلافات کی اہمیت جانتے ہیں صدرزرداری اگر وزراعظم بدلیں گے تب بھی حکومت ان کی بدنام ہوگی اور اگروہ وزیراعظم نہیں بدلتے تواختیارات کے بگڑے ہوئے توازن میں ان دونوں میں اختلافات پیدا ہوتے رہیںگے جس سے نواز شریف فائدہ اٹھاتے رہیں گے

کیا یہ حل نہیں کہ صدرزرداری18 ویں ترمیم میں رکاوٹ نہ بنیں اور صدر اور وزیراعظم کے اہم مناصب کو مذاق بننے سے بچالیںمان لیا کہ صدر نمائشی صدر بننا گوارا نہیں کریں گے مگر یاد رہے لمبی چھلانگ مارنے کے لیے تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑتا ہے صدر زرداری کی بظاہر یہ ہار ہوگی مگر ان کے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ورنہ جب قومی اسمبلی کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہ رہے تو مارشل لاء کے دروازے کھل جاتے ہیں مارشل لاء کے ان دروازوں کو پالیمانی روایات ہی ختم کرسکتی ہیں ۔
 
Top