سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا
بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا

قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ ِ بے ثمر
بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا

کرنا تھا جو سفر ہمیں ہم نے نہیں کیا
بچوں کو آج اس لئے گھر چھوڑنا پڑا

آ تو گئے ہو ، سوچ لو جاؤ گے پھر کہاں
یہ شہر ِ بد لحاظ اگر چھوڑنا پڑا

گھر سے چلا تھا بار ِ وراثت اٹھا کے میں
رستے میں تھوڑا تھوڑا مگر چھوڑنا پڑا

نفرت کے سانپ آ گئے گھر تک تو میں ظہیر
اتنا ڈرا کہ خوف ِ سفر چھوڑنا پڑا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸

ٹیگ: محمد تابش صدیقی کاشف اختر سید عاطف علی فاتح
 
مزہ آ گیا ظہیر بھائی۔
سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا
بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا

قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ ِ بے ثمر
بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا

نفرت کے سانپ آ گئے گھر تک تو میں ظہیر
اتنا ڈرا کہ خوف ِ سفر چھوڑنا پڑا

بہت اعلٰی۔
 

سارہ خان

محفلین
سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا
بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا

قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ ِ بے ثمر
بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا

بہت خوب ۔۔۔ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
ہر شعر نہایت عمدہ ظہیر صاحب !کہاں ہیں آپ آج کل ؟

گھر سے چلا تھا بار ِ وراثت اٹھا کے میں
رستے میں تھوڑا تھوڑا مگر چھوڑنا پڑا
کیا خوب-

کرنا تھا جو سفر ہمیں ہم نے نہیں کیا
بچوں کو آج اس لئے گھر چھوڑنا پڑا

واہ -کیا ہی خوب فرمایا -
 
Top