سبطِ علی صبا۔ فن اور شخصیت۔ اختر شاد

الف عین

لائبریرین
پی ایچ ڈی کا مقالہ
نگران: پروفیسر ایم رفیق بیگ، صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ، اصغر مال، راولپنڈی
(پنجاب یونیورسٹی)
 

الف عین

لائبریرین
چند ضروری باتیں

سید سبطِ علی صبا کا ایک مشہور شعر تو میں لڑکپن سے سنتا آ رہا تھا۔ لیکن 1984ء میں ان کے چند اشعار میری نظر سے گزرے، جنہوں نے مجھ جیسے ادب کے طالب علم کو بہت متأثر کیا۔ 1984 ءتا 1990ءکے چھ سالوں میں مَیں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ سید سبطِ علی صبا جیسے جدید شاعر کے محض مزدور ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری پر تنقیدی و تشریحی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1989ءمیں جب مَیں ایم۔ اے۔ سال اول میں تھا، تو یونیورسٹی کی طرف سے راولپنڈی کے شعبہ اردو کے طلباءکو پہلی مرتبہ تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھنے کی اجازت ملی۔ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر مجھے مقالہ لکھنے کا موقع ملا تو میں سید سبطِ علی صبا پر کام کروں گا۔ مارچ 1990ءمیں ہمارے سال اول کے تنیجے کے مطابق جب مجھے مقالہ لکھنے کا اہل قرار دیا گیا تو میں نے سید سبطِ علی صبا کا نام پیش کر دیا۔ جب مجھے یونیورسٹی کی طرف سے موضوع کی منظوری کی اطلاع ملی تو مجھے غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی۔ کیونکہ اس کام کو میں اپنی نصابی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنا ایک سماجی فرض بھی سمجھتا تھا۔
مقالے کی تیاری کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو کوئی اہم بات نہیں ، کیونکہ مشکلات تحقیق کرنے والے ہر طالب علم کو پیش آتی رہتی ہیں ۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ ان مشکلات کو دور کرنے میں بہت سے لوگوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔
میں سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے اربابِ اختیار کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے راولپنڈی کے طلباءو طالبات کو بھی مقالے لکھنے کی سہولت دے رکھی ہے، جو نہ صرف طلباءکے لئے سودمند ہے بلکہ اس طرح شمالی پنجاب کے گمنام ادیبوں پر بھی کام کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں ۔ میں اپنے اس مقالے کے نگران اور اپنے شفیق استاد پروفیسر رفیق بیگ صاحب (صدر، شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج، اصغر مال، راولپنڈی) کا بے حد ممنون ہوں ، جن کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی نے مجھے یہ کام کرنے کا اعتماد بخشا۔ اپنے استادِ محترم پروفیسر یوسف حسن صاحب کا بھی تہِ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے مقالے کی تیاری کے سلسلے میں مشفقانہ مشوروں سے نوازا، اور ضروری مطالعاتی مواد فراہم کیا۔ میں شعبہ اردو کے تمام اساتذہ کرام بالخصوص پروفیسر قیوم شاکر صاحب، پروفیسر ارشد احمد صاحب، پروفیسر ماجد صدیقی صاحب اور شعبہ انگریزی کے پروفیسر اظہر جاوید طارق صاحب کا بھی شکر گزار ہوں کہ وہ میرے کام میں دلچسپی لیتے رہے۔ میں اے۔سی۔ ریکارڈ وِنگ لیفٹیننٹ کرنل سید اقتدار حسین شاہ صاحب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے صبا کے کلام اور میرے کام میں دلچسپی لیتے ہوئے مجھے صبا کا آرمی سروس کا ضروری ریکارڈ فراہم کیا۔ ہفت روزہ ”ہلال“ راولپنڈی کے یٰسین صاحب اور ہفت روزہ ”واہ کاریگر“ کے میرے محترم طفیل کمالزئی صاحب میرے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں ، جنہوں نے صبا کی تخلیقات کا ریکارڈ فراہم کیا۔ میں اپنے ہم جماعت دوست کمال پاشا راز اور نثار ترابی بھائی کا بے حد ممنون ہوں جو اس کام کے آغاز سے تکمیل تک میرے ہم قدم رہے۔ جناب ڈاکٹر توصیف تبسم، آفتاب اقبال شمیم، شفیع ضامن، نثار ناسک، رشید نثار، حسن ناصر، اکمل ارتقائی، علی مطہر اشعر اور نظیر اختر صاحب نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ میں ان سب کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں ۔ میں بیگم صبا، صبا کے والد محترم اور ان کے جملہ اہلِ خانہ کا بھی ممنون ہوں جن کا تعاون قدم قدم پر شامل ِ حال رہا۔ میں اپنے ایم۔ اے۔ کے سینئر دوست وسیم حید صاحب، اور اپنے دوستوں اشرف سلیم، ابوذر، وسیم کشفی، رؤف امیر اور یعقوب آسی کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے میری معاونت اور حوصلہ افزائی کی۔ میرے برادرانِ حقیقی مہتاب احمد ستی اور اشتیاق احمد نے اپنا بہت سا قیمتی وقت میرے لئے وقف رکھا، ان کا شکریہ مجھ پر واجب ہے۔ میں کلاسک آئی بی ایم کمپوزرز راولپنڈی کے خرم نصیر بھائی اور ندم اقبال قریشی کا بھی بے حد ممنون ہوں جنہوں نے نہ صرف بہت کم وقت میں اس مقالے کو کمپوز کیا بلکہ اغلاط کو دور کرنے کے لئے اس کے صفحات کو بار بار لیزر پرنٹر سے گزارا۔
اور آخر میں ، میں اپنے والد محترم کی خدمت میں تشکر کے جذبات پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے مقالے کی تیاری کے دوران مجھے ہر قسم کی متعلقہ سہولیات فراہم کیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی شفقت کا سایہ میرے سر پر نہ ہوتا تو میرے لئے اس کام کی تکمیل ناممکن تھی۔
اختر شاد
03 جنوری 1991ء
 

الف عین

لائبریرین
باب اول
خاندانی پس منظر​

سید سبطِ علی صبا کے آباءو اجداد کا تعلق سادات کے جعفری ترمذی خانوادے سے تھا۔ دادا کا نام سید محمد علی شاہ تھا جو تحصیل و ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں کوٹلی لوہاراں (مشرقی) کے ایک صاحبِ جائیداد شخص تھے۔ اپنی افتادِ طبع کے باعث سید محمد علی شاہ نے کاشت کاری پر ملازمت کو ترجیح دی اور محکمہ مال میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایک عرصہ تک پٹواری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے بعد اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور محکمہ ڈاک میں ملازم ہو گئے۔ عمر کے آخری ایام تک بطور پوسٹ ماسٹر خدمات سر انجام دیتے رہے۔[1]
سید محمد علی شاہ نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی بیوی اپنے گاؤں کی تھی، جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دوسری شادی جموں کشمیر کی ایک غیر سادات خاتون عائشہ بی بی سے کی۔ عائشہ بی بی کے یکے بعد دیگرے دس بچے کم سنی میں انتقال کر گئے۔ ادھیڑ عمری میں گیارہواں بچہ پیدا ہوا تو سید محمد علی شاہ نے اپنے دامنِ امید کو اپنے مذہبی اعتقادات سے وابستہ کرتے ہوئے اس کا نام زین العابدین رکھا۔ سید محمد علی شاہ کی خدا نے سن لی اور اس طرح خاندانِ اہل بیت کی طرح ان کے خاندان کا نام بھی مٹتے مٹتے بچا۔سید این العابدین سید محمد علی شاہ کی واحد نرینہ اولاد ہیں ۔ ان کے علاوہ دو بیٹیاں فرمان بی بی اور فاطمہ بی بی ہوئیں ، جن کی شادیاں ہو چکی ہیں اور صاحبِ اولاد ہیں ۔
سید زین العابدین نے اپتدائی تعلیم کوٹلی لوہاراں کے پرائمری سکول میں حاصل کی۔ لڑکپن میں والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ محترمہ عائشہ بی بی نے (جو گاؤں میں مائی ڈوگری کے نام سے مشہور تھیں )بیٹے کی تربیت پوری توجہ سے کی۔ والد نے کافی جائیداد چھوڑی تھی لیکن کم عمری، نا تجربہ کاری اور اکیلا ہونے کی وجہ سے سید زین العابدین اس کو سنبھال نہ سکے۔ جائیداد دیکھ کر عزیز رشتہ دار ہمدردیاں جتانے لگے۔ باپ کی شفقت اور حقیقی بھائیوں کے سہارے سے محروم سید زین العابدین نے جائیداد کا ایک بڑا حصہ نام نہاد غم گساروں میں بانٹ دیا اور جائیداد کے انہیں بکھیڑوں سے تنگ آ کر برطانوی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔ اس دوران ان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی سید امیر حیدر شاہ کی بیٹی سیدہ سفی بیگم سے ہوئی، جو قرآنِ پاک کا عمیق مطالعہ رکھنے والی ایک مذہبی اور روایتی اخلاقی اقدار کی پابند خاتون تھیں ۔
افواجِ برطانیہ کی ملازمت کے دوران سید زین العابدین نے دوسری جنگِ عظیم میں شرکت کی اور پانچ برس تک جرمنی کے قیدی رہے۔ قید کے دوران قرآنِ پاک کا بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور دینی کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک ملاقات کے دوران بتایا: ”قیدِ جرمنی میں مجھے مذہبی معلومات رکھنے والے بہت سے لوگوں کے ساتھ بحث مباحثے کا موقع ملا۔ ان میں دو عالم تھے جن کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات تھے۔[2]
انہوں نے مزید بتایا کہ گھر کے ماحول کی وجہ سے وہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف راغب تھے۔ اس کا علاوہ ان کی طبیعت میں تحقیق اور تجسس کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ جرمنی کی قید کے عرصے نے ان کے مذہبی اور تحقیق و تجسس کے ذوق کو مہمیز لگائی اور جب قید سے رہا ہو کر واپس آئے تو نہ صرف ایک مذہبی شخص بلکہ ایک مبلّغ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔[3]
سید سبطِ علی صبا (مرحوم) سید زین العابدین کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان سے پہلے دو بچیاں کم سنی میں انتقال کر چکی تھیں ۔ سبطِ علی صبا کے چھوٹے بھائی کا نام سید سبطِ حسن ہے جو رالپنڈی میں ایک پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں ۔ ان سے چھوٹی بہن قسیم فاطمہ ہیں ۔ قسیم فاطمہ سے چھوٹے بھائی کا نام سید ظہور حسین شاہ ہے، ان کے بعد بہن نجم السحر اور سب سے چھوٹے پھائی سید طاہر حسین شاہ ہیں ، جو کاروبار کرتے ہیں ۔
سید سبطِ علی صبا کے والد محترم سید زین العابدین جعفری کی عمر اس وقت اٹھتّر برس ہے۔ وہ لالہ رخ کالونی (واہ چھاؤنی) کے ایک مکان C -705 میں اپنے بیٹوں سید طاہر حسین شاہ، سید ظہور حسین شاہ اور بیٹی نجم السحر کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ۔ سید سبطِ علی صبا (مرحوم) کی والدہ محترمہ کا انتقال 1979ءمیں ہوا تھا۔ مرحومہ لالہ رخ کالونی کے بڑے قبرستان میں مدفون ہیں ۔

حواشی
1۔ خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات سید سبطِ علی صبا کے والد سید زین العابدین سے حاصل کی گئیں ۔
2۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 4 2 دسمبر 1990ء، رات آٹھ بجے، بمقام سی ۔507، لالہ خ، واہ چھاؤنی۔
3 ۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 4 2 دسمبر 1990ء، رات آٹھ بجے، بمقام سی ۔507، لالہ خ، واہ چھاؤنی۔
 

الف عین

لائبریرین
پیدائش اور تعلیم

سید سبطِ علی صبا 11 نومبر 1935ءکو اپنے آبائی گاؤں کوٹلی لوہاراں (مشرقی) تحصیل و ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔[1] والدہ نے ان کا نام سبطِ علی رکھا۔ ان دنوں صبا کے والد زین العابدین فوج کی ملازمت کے سلسلے میں رڑکی (انڈیا) میں تھے۔ سید زین العابدین بتاتے ہیں : ”ان دنوں میں آرمی سروس کے سلسلے میں رڑکی (انڈیا) میں تھا۔ دریا کے کنارے ہمارا کیمپ تھا۔ اور وہاں بذریعہ خط مجھے سبطِ علی کی پیدائش کی اطلاع ملی تھی۔ خط پڑھتے ہی دوستوں نے اک جشن سا منا ڈالا، مٹھائی تقسیم کی گئی اور ہر طرف سے مبارک سلامت کی صدائیں آنے لگیں ۔گھر میں سبطِ علی کی ولادت پر کچھ اس لئے بھی زیادہ خوشی منائی گئی کہ وہ میرا پہلا بیٹا تھا۔ اس سے پہلے دو لڑکیاں ہوئی تھیں اور وہ بھی کم سنی میں چل بسی تھیں ۔ اور، اس سے بھی بڑی بات یہ کہ خود مجھ سے بڑے دس بھائی ایک ایک کر کے فوت ہو چکے تھے اور ان میں سے تنِ تنہا میں خود تھا جو زندہ رہا تھا۔ گویا خاندان کا نام مٹتے مٹتے بچا تھا۔ اور میرے بعد اب ننھا سبطِ علی تھا جو خاندان کی بقا کی علامت بن گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ پیدا ہوا تو ایک عرصے تک میری ماں نے اسے باہر کے لوگوں سے چھپائے رکھا، مبادا بچے کو کسی کی نظر لگ جائے۔ [2]
صبا کے بچپن ہی میں ان کے والد اپنے مختصر خاندان کو اپنے ساتھ رڑکی لے گئے۔ صبا کو والد نے آرمی کے ایک سکول میں داخلہ دلوایا۔ پرائمری تک تعلیم صبا نے وہاں سے حاصل کی اور ساتھ ساتھ اپنے والد سے ہی قرآنِ پاک ناظرہ پڑھا۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ والد اور والدہ دونوں ہی اپنے مذہبی عقائد کے پکے تھے۔ لہٰذا ابتدا ہی سے آنحضرت اور اہل بیت سے محبت صبا کے دل میں پروان چڑھنے لگی۔ والد کو مطالعہ کا شوق تھا اور گھر پر مذہبی تقریبات اور مباحثے بھی ہوتے تھے، جن کی وجہ سے اسلامی اقدار اور اسلامی تاریخ سے وابستگی صبا کی شخصیت کا جزوِ لاینفک بن گئی۔ والد کی عسکری زندگی سے وابستگی کی بنیاد پر جنگی ساز و سامان کو صبا نے ایک بچے کی پر تجسس نگاہ سے دیکھا۔ حب وطن کا جذبہ صبا کی شخصیت میں اسی دوران رچ بس گیا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بچپن کے اس دور میں لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ اپنے باپ کو بھی بدیسی حکم رانوں کی اقتصادی، معاشرتی اور جسمانی غلامی میں دیکھا۔ صبا کے عہدِ طفلی میں ان کے والد پانچ سال تک جرمنی کے قیدی رہے۔ پھر بر صغیر کی تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے دوران کی تحاریک، مظاہرے اور فسادات اس وقت اپنے عروج پر صبا نے دیکھے جب وہ سنِ شعور میں داخل ہو رہے تھے۔
رڑکی میں صبا نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ تقسیم کے بعد سید این العابدین نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی اور نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کا عزم لے کر اپنے مختصر کنبے کے ساتھ پاکستان آئے، اور سیالکوٹ میں اپنے بہنوئی کپتان محبوب علی شاہ اور گاؤں کے دو اور آدمیوں محمد بشیر بٹ اور محمد نذیر بٹ کے ساتھ مل کر ایک کارخانہ ”جعفری ربڑ انڈسٹری“ کے نام سے کھول لیا۔ شب و روز کی محنت س اس کارخانے نے بہت ترقی کی۔ سید سبطِ علی صبا کو مقامی سکول میں داخل کروا دیا گیا مگر شومئ قسمت سے چھٹی دہائی کے آخر میں ، جب صبا نویں کے طالب علم تھے، یہ کارخانہ ایک تباہ کن سیلاب کی نذر ہو گیا۔ چونکہ کارخانے کے مالکان حکومت کے قرض دار بھی تھے، اس لئے ملبہ اور بچا کھچا سامان نیلام کر دیا گیا۔ ان حالات میں گھر کی معاشی ابتری کے باعث سید زین العابدین کو مجبوراً کوئی ملازمت تلاش کرنا پڑی۔ اس دور کو یاد کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں : ”میرے معاشی حالات ایسے نہ تھے کہ سبطِ علی کی پڑھائی جاری رہ سکتی“۔[3,4]

حواشی
1۔ تاریخ پیدائش کی سید سبطِ علی صبا کے سروس ریکارڈ سے تصدیق کی گئی۔
2۔ ”صبا ایک خود سر لڑکا“ سبطِ علی صبا کے والد محترم سے ایک گفتگو۔ مطبوعہ ”واہ کاریگر“ سبطِ علی صبا نمبر، جلد 4 1، شمارہ 8، یکم اگست 1980ء(ص 12) تحریر: غلام رسول
3 ۔ سید زین العابدین سے ایک گفتگو۔ مؤرخہ 51 دسمبر 1990ءبمقام سی ۔507، لالہ رخ، واہ چھاؤنی۔
4 ۔ راقم نے سید سبطِ علی صبا کے سروس ریکارڈ کا معائنہ کیا اور ان کے عزیز و اقارب سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کیں ، جن کے مطابق معاشی بد حالی کی وجہ سے وہ نویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ پروفیسر یوسف حسن نے اپنے کالم ”قوس در قوس“ مطبوعہ روزنامہ ”امروز“ لاہور 42 مئی 1990ء میں لکھا ہے کہ صبا نے میٹرک پاس کیا تھا۔ لیکن تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ صبا صرف نویں جماعت تک تعلیم حاصل کر سکے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
آغازِ شاعری

سید سبطِ علی صبا کے شعری سفر کے آغاز کے بارے میں ان کے والد سید زین العابدین جعفری کہتے ہیں : ”شروع میں جب ہم رڑکی (انڈیا) میں رہتے تھے تو ہمارے ہاں شہدائے کربلا کے حوالے سے محفلیں ہوتی رہتی تھیں ۔ صبا وہاں بھی مصرعے جوڑتا رہتا تھا۔ وہ شروع سے ہی میری طرح پر تجسس طبیعت رکھتا تھا“[1]۔ سید سبطِ علی صبا کی زندگی اور شاعری کے بارے میں واہ کے ایک ادیب غلام رسول نے 1980ءمیں صبا کے انتقال کے بعد مجلہ ”واہ کاریگر“ کے سبطِ علی صبا نمبر کے لئے صبا کے والد سید زین العابدین سے ایک تفصیلی گفتگو کی، جو مذکورہ پرچے کے صفحہ 02، 12، 22 پر چھپی۔ جناب غلام رسول سوال کرتے ہیں ۔
سوال: شعر و ادب کے ساتھ وابستگی صبا کو کہیں وراثت میں تو نہیں ملی؟ میرا مطلب ہے، ہو سکتا ہے آپ سے متأثر ہو کر وہ اس طرف مائل ہوئے ہوں ۔
جواب: ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ مجھے شعر و شاعری کا شوق تو نہیں تھا البتہ مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ اس کے علادہ مذہبی امور پر دوستوں سے اکثر بحث و تمحیص رہتی۔ ان نجی محفلوں کا اثر یہ ہوا کہ صبا کے ذہن میں تجسس کا مادہ پیدا ہوا اور اس کے دل میں حقائق کو کھوجنے اور پرکھنے کا اشیاق پیدا ہوا۔ اس کے علاوہ گھر میں اکثر مذہبی تقریبات ہوتی رہتی تھیں اور صبا ان میں بڑی دلچسپی لیا کرتا تھا۔ ان چیزوں نے بھی اس کے ذہن پر اثر ڈالا۔
سوال: آپ کو یاد ہے، کہ صبا نے سب سے پہلا شعر کب اور کہاں کہا اور وہ کس قسم کا تھا؟
جواب: مجھے ٹھیک سے تو یاد نہیں ۔ تاہم یہ کم و بیش اس زمانے کی بات ہے جب صبا نے دوستوں سے مل کر ایک بزم ادب بنا ڈالی تھی۔ سب سے پہلے اس نے جو شعر کہے وہ ایک قصیدے کے اشعار تھے اور یہ قصیدہ اس نے مدح اہل بیت میں کہا تھا۔ جب میں نے اس کا ذکر صبا کے نانا [2] سے کیا تو انہوں نے باقاعدہ ایک مجلس کا اہتمام کر ڈالا، جہاں سبطِ علی کو قصیدہ پڑھنے کو کہا گیا[3]۔
راقم نے اس سلسلے میں تفصیل جاننے کے لئے سید زین العابدین (صبا کے والد) سے رابطہ کیا تو وہ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے: ”ہمارے گاؤں (کوٹلی لوہاراں ، ضلع سیالکوٹ) میں ایک خالی دکان تھی جو اکثر بند رہتی تھی۔ سبطِ علی کے پاس دو لڑکے آئے، ان میں سے اک کا نام بوٹا قصائی تھا وہ آج کل باہر کسی ملک میں ملازمت کرتا ہے اس نے دکان کے مالک سے چابی لے کراس میں دو کرسیاں رکھوائیں اور دکان کے باہر ”بزمِ ادب“ کا بورڈ لگوایا۔ صبا نے مجھے بتایا کہ ہم نے ادبی تنظیم بنائی ہے۔ وہاں ایک محفل ہوئی، کیپٹن محبوب علی شاہ نے صبا سے شعر سنے۔ اس وقت صبا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا“۔[4]
مندرجہ بالا بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ سید سبطِ علی صبا بچپن ہی سے شعر و شاعری سے رغبت رکھتے تھے لیکن ان کے کسی بھی عزیز یا رشتہ دار سے ان کے بچپن یا سکول کے دور کی شاعری کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ہو سکا۔ چھٹی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ملک کے لئے دفاعی ساز و سامان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے واہ (ضلع راولپنڈی) میں ایک کارخانے ”پاکستان آرڈنینس فیکٹری“ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، سید سبطِ علی صبا کے والد سید زین العابدین کاروبار ناکام ہونے کے بعد ملازمت کی تلاش میں سیالکوٹ سے واہ منتقل ہو گئے۔ جہاں 1953ءمیں ان کو ملٹری انجینئرنگ سروسز میں بطور ورک منشی ملازمت مل گئی۔ سید سبطِ علی صبا تعلیم ترک کر کے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ انہی دنوں توصیف تبسم کا تبادلہ پشاور سے واہ ہوا اور راولپنڈی سے آفتاب اقبال شمیم بھی ایف ایس سی کرنے کے بعد واہ منتقل ہو گئے۔ ایک اور قابلِ ذکر شاعر شاہد نصیر بھی اس زمانے میں واہ میں موجود تھے۔ ان کے علاوہ الیاس صدا، نثار ناسک، اکمل ارتقائی، احمد جمیل، ظہیر رامپوری، نسیم قریشی اور جمال لکھنوی وغیرہ بھی واہ میں موجود تھے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سید سبطِ علی صبا شاعری کی طرف صحیح معنوں میں اس وقت متوجہ ہوئے جب انہیں واہ کی فضاؤں میں ادبی ماحول میسر آیا۔ تاہم ان کا چھٹی دہائی کا کلام کوئی خاص پہچان نہیں بناتا۔
ڈاکٹر توصیف تبسم اور پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نے سبطِ علی صبا سے اپنی پہلی ملاقات کے حوالے سے راقم کو ایک مشترکہ ملاقات میں بتایا: ”ہم نے واہ میں پارٹیزن آرٹ اینڈ لٹریچر نام کی ایک ادبی تنظیم کی شاخ قائم کی۔ راولپنڈی میں اس کے روحِ رواں احمد ظفر، جمیل ملک، منظور عارف اور افضل پرویز وغیرہ تھے۔ یہ ترقی پسندوں کی ایک ادبی تنظیم تھی۔ واہ میں اس کے عہدے دار آفتاب اقبال شمیم اور الیاس صدا کو مقرر کیا گیا۔ اس تنظیم کا پہلا اور آخری اجلاس واہ کی اسلم مارکیٹ کے قریشی ہوٹل میں منعقد ہوا۔ یہ 1954ءکی بات ہے۔ وہاں سبطِ علی نے غیض کے تخلص کے ساتھ اشعار سنائے، اس وقت اس کی شاعری ناپختہ تھی“[5] ۔تخلص کے سلسلے میں اسی ملاقات کے دوران ڈاکٹر توصیف تبسم نے بتایا:”میں نے سبطِ علی سے کہا کہ تم نے یہ کیا تخلص رکھا ہے، تو اس کا جواب تھا: اگر فیض احمد فیض ہو سکتا ہے تو سبطِ علی غیض کیوں نہیں ہو سکتا؟ بعد ازاں اس نے اپنے ایک ساغر نامی دوست کے مشورے پر تخلص بدل کر ماضی رکھ لیا۔ ایک سال تک وہ ماضی رہا، اکثر ہم اس کو ماضی کہہ کر چھیڑتے رہے۔ بعد ازاں اس نے میرے مشورے پر صبا تخلص رکھا“۔

آفتاب اقبال شمیم اور ڈاکٹر توصیف تبسم نے مزید بتایا کہ: ”اس وقت صبا اپنے فنی سفر کے آغاز میں تھے۔ ان کا شعر کے ساتھ لگاؤ والہانہ تھا اور وہ ہر وقت مجنونِ شعر رہتے تھے، لیکن ان کی شاعری میں کوئی ایسی خاص بات نہ تھی جو سننے والے کی توجہ کو کھینچ سکے“۔ توصیف تبسم کہتے ہیں : ” ان دنوں ، میں اور آفتاب ویلفیئر کلب کے عقب کے رہائشی ایریا (ایف ۔01) کے ایک کوارٹر میں ایک شاعر توصیف حسن کے ساتھ رہتے تھے۔ صبا روزانہ ہمارے پاس آتا تھا۔ ہمارے ایک باورچی ہوتے تھے (جن کو ہم بڑے میاں کہتے تھے)، صبا سے ایک دن ان کا حقہ ٹوٹ گیا تھا، وہ اکثر صبا کو ”چلم توڑ“ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ (صبا) اس وقت سکول چھوڑ کر واہ آیا تھا، بالکل نوجوان تھا۔ راہ چلتے ہوئے وہ ارد گرد سے بے نیاز نظر آتا تھا۔ گویا شاعری کے سوا اس کو کسی چیز سے سروکارہی نہیں ، وہ مجنونِ شعر بن کر آتا تھا۔“
سید سبطِ علی صبا مجنونِ شعر بن کر پہلے پہل 1953ءسے 1956ءتک واہ کی فضاؤں میں رہے لیکن ان کے گھر والوں عزیزوں یا دوستوں سے ان کی اس دور کی شاعری کا بھی کوئی نمونہ نہیں ملا۔ سب کی مشترکہ رائے ہے کہ اس دور کا کلام چونکہ مشقِ سخن کے علاوہ کچھ نہ تھا، اس لئے صبا نے اسے ضائع کر دیا ہے۔ 12 جون 1956 ءکو صبا ایک ریکروٹ کی حیثیت سے پاک فوج میں بھرتی ہو کر نوشہرہ چھاؤنی چلے گئے۔ وہان ان کی ملاقات کلیم جلسیری سے ہوئی جن کی وہاں تمباکو کی دکان تھی۔ اس ضمن میں صبا کے والد زین العابدین کہتے ہیں : ”جن دنوں وہ نوشہرہ میں تھا، ایک بار میں اسے ملنے وہاں گیا۔ وہ کہنے لگا: ’چلئے ابا، میں آپ کو اپنے ایک دوست سے ملواتا ہوں ، وہ بہت بڑا آدمی ہے۔‘ میں اس کے ساتھ چل دیا۔ وہ مجھے مین بازار میں لے گیا اور ایک تمباکو فروش کی دکان پر لا کر بٹھا دیا۔ ایک دبلا پتلا منحنی سا بوڑھا، جو تمباکو کے ڈھیر میں گھرا ہوا ایک گاہک کو تمباکو دے رہا تھا یہ صاحب بڑے پختہ کار شاعر تھے اور ان کا تخلص تھا کلیم جلسیری۔“[6] صبا کے دیرینہ دوست اکمل ارتقائی (جو، اب بھی واہ میں موجود ہیں ) کا کہنا ہے کہ صبا کی ملاقات نوشہرہ میں کلیم جلسیری سے رہتی تھی۔ اور اسی دوران صبا نے یہ غزل کہی تھی جو ان کے مجموعۂ غزل ”طشتِ مراد“ میں بھی شامل ہے [7]:
ہر اک قدم پہ زخم نئے کھائے کس طرح
رندوں کی انجمن میں کوئی جائے کس طرح
صحرا کی وسعتوں میں رہا عمر بھر جو گم
صحرا کی وحشتوں سے وہ گھبرائے کس طرح
جس نے بھی تجھ کو چاہا دیا اس کو تو نے غم
دنیا ! ترے فریب کوئی کھائے کس طرح
زنداں پہ تیرگی کے ہیں پہرے لگے ہوئے
پُرہول خواب گاہ میں نیند آئے کس طرح
زنجیرِپا کٹی تو جوانی گزر گئی
ہونٹوں پہ تیرا نام صبا لائے کس طرح
اگرچہ یہ غزل بھی صبا کی دوسری غزلوں کی طرح ان کے مخصوص شعری مزاج کی آئینہ دار ہے، تاہم اس میں غزل کے روایتی موضوعات اور معاصر غزل کے معروف رویوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ، جو بعد میں ان کی شاعری میں بتدریج کم ہوتی گئیں اور صبا کی غزل صرف صبا کی غزل کے حوالے سے سامنے آنے لگی۔ تصوف ابتدا ہی سے غزل کا مرغوب موضوع رہا ہے اور ”تصوف برائے شعر گفتن خوب است“ کی مثالیں ہر شاعر کے ہاں مل جاتی ہیں ۔ صبا کی اس غزل کے ایک شعر میں بھی اس روایتی موضوع کے ایک اہم پہلو ’دنیا کی بے ثباتی‘ کی طرف اشارہ ملتا ہے:
جس نے بھی تجھ کو چاہا دیا اس کو تو نے غم
دنیا ! ترے فریب کوئی کھائے کس طرح
یہ وہ دور تھا جب فیض احمد فیض کی شاعری کے گلی گلی چرچے تھے، قفس، زنداں ، زنجیر، سلاسل، تیرگی وغیرہ کے شعری استعارے اور امیجز عام تھے۔ صبا بھی فیضسے بہت متأثر تھے جس کا ثبوت ان کا اولین تخلص غیض اور پھر اس قسم کے اشعار تھے:
زنداں پہ تیرگی کے ہیں پہرے لگے ہوئے
پُرہول خواب گاہ میں نیند آئے کس طرح
سید سبطِ علی صبا کے کلام کے ابتدائی نمونے کے طور پر مذکورہ بالا غزل کو ہی پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی اس سے قبل کی شاعری کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ہو سکا۔ واہ کے شاعر اکمل ارتقائی نے ایک ملاقات کے دوران بتایا: ”صبا نے یہ غزل پہلی مرتبہ 1958ءمیں قمر واجد کے گھر (واقع 22 ایریا، واہ چھاؤنی) کی ایک نجی محفل میں سنائی تھی ۔ اس محفل میں ان کے علاوہ احمد جمیل اور الیاس صدا نے بھی شرکت کی۔ ان دنوں وہ آرمی میں تھے اور واہ میں اپنے والدین سے ملنے کے لئے خصت پر آئے ہوئے تھے۔[8]

حواشی
1۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مأرخہ 51 دسمبر 1990ءشام سات بجے، بمقام سی ۔507، لالہ رخ، واہ چھاؤنی۔
2۔ کیپٹن محبوب علی شاہ صبا کے سگے نانا نہیں بلکہ نانا کے چھوٹے بھائی اور حقیقی پھوپھا ہیں ۔
3 ۔ ”صبا، ایک خود سر لڑکا“ واہ کاریگر (سبطِ علی صبا نمبر) اگست 1980ء،ص :12
4 ۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 51 دسمبر 1990ءشام سات بجے، بمقام سی ۔507، لالہ رخ، واہ چھاؤنی۔
5۔ آفتاب اقبال شمیم اور ڈاکٹر توصیف تبسم سے راقم کی ملاقات، مؤرخہ 7 دسمبر 1990ءشام چھ بجے، مکان نمبر 115، گلی نمبر 91، آئی نائن، اسلام آباد۔
6۔ سبطِ علی صبا نمبر، واہ کاریگر ، ص :22۔
7۔ اکمل ارتقائی سے ایک گفتگو مؤرخہ 5 دسمبر 1990ءشام سات بجے، ایچ ایف ایف ہائی سکول، ٹیکسلا۔
8۔ اکمل ارتقائی سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 52 دسمبر 1990ءکی صبح دس بجے، بمقام عباسی ہوٹل، اسلم مارکیٹ، واہ چھاؤنی۔
 
Top