باب اول
خاندانی پس منظر
سید سبطِ علی صبا کے آباءو اجداد کا تعلق سادات کے جعفری ترمذی خانوادے سے تھا۔ دادا کا نام سید محمد علی شاہ تھا جو تحصیل و ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں کوٹلی لوہاراں (مشرقی) کے ایک صاحبِ جائیداد شخص تھے۔ اپنی افتادِ طبع کے باعث سید محمد علی شاہ نے کاشت کاری پر ملازمت کو ترجیح دی اور محکمہ مال میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایک عرصہ تک پٹواری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے بعد اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور محکمہ ڈاک میں ملازم ہو گئے۔ عمر کے آخری ایام تک بطور پوسٹ ماسٹر خدمات سر انجام دیتے رہے۔[1]
سید محمد علی شاہ نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی بیوی اپنے گاؤں کی تھی، جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دوسری شادی جموں کشمیر کی ایک غیر سادات خاتون عائشہ بی بی سے کی۔ عائشہ بی بی کے یکے بعد دیگرے دس بچے کم سنی میں انتقال کر گئے۔ ادھیڑ عمری میں گیارہواں بچہ پیدا ہوا تو سید محمد علی شاہ نے اپنے دامنِ امید کو اپنے مذہبی اعتقادات سے وابستہ کرتے ہوئے اس کا نام زین العابدین رکھا۔ سید محمد علی شاہ کی خدا نے سن لی اور اس طرح خاندانِ اہل بیت کی طرح ان کے خاندان کا نام بھی مٹتے مٹتے بچا۔سید این العابدین سید محمد علی شاہ کی واحد نرینہ اولاد ہیں ۔ ان کے علاوہ دو بیٹیاں فرمان بی بی اور فاطمہ بی بی ہوئیں ، جن کی شادیاں ہو چکی ہیں اور صاحبِ اولاد ہیں ۔
سید زین العابدین نے اپتدائی تعلیم کوٹلی لوہاراں کے پرائمری سکول میں حاصل کی۔ لڑکپن میں والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ محترمہ عائشہ بی بی نے (جو گاؤں میں مائی ڈوگری کے نام سے مشہور تھیں )بیٹے کی تربیت پوری توجہ سے کی۔ والد نے کافی جائیداد چھوڑی تھی لیکن کم عمری، نا تجربہ کاری اور اکیلا ہونے کی وجہ سے سید زین العابدین اس کو سنبھال نہ سکے۔ جائیداد دیکھ کر عزیز رشتہ دار ہمدردیاں جتانے لگے۔ باپ کی شفقت اور حقیقی بھائیوں کے سہارے سے محروم سید زین العابدین نے جائیداد کا ایک بڑا حصہ نام نہاد غم گساروں میں بانٹ دیا اور جائیداد کے انہیں بکھیڑوں سے تنگ آ کر برطانوی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔ اس دوران ان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی سید امیر حیدر شاہ کی بیٹی سیدہ سفی بیگم سے ہوئی، جو قرآنِ پاک کا عمیق مطالعہ رکھنے والی ایک مذہبی اور روایتی اخلاقی اقدار کی پابند خاتون تھیں ۔
افواجِ برطانیہ کی ملازمت کے دوران سید زین العابدین نے دوسری جنگِ عظیم میں شرکت کی اور پانچ برس تک جرمنی کے قیدی رہے۔ قید کے دوران قرآنِ پاک کا بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور دینی کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک ملاقات کے دوران بتایا: ”قیدِ جرمنی میں مجھے مذہبی معلومات رکھنے والے بہت سے لوگوں کے ساتھ بحث مباحثے کا موقع ملا۔ ان میں دو عالم تھے جن کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات تھے۔[2]
انہوں نے مزید بتایا کہ گھر کے ماحول کی وجہ سے وہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف راغب تھے۔ اس کا علاوہ ان کی طبیعت میں تحقیق اور تجسس کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ جرمنی کی قید کے عرصے نے ان کے مذہبی اور تحقیق و تجسس کے ذوق کو مہمیز لگائی اور جب قید سے رہا ہو کر واپس آئے تو نہ صرف ایک مذہبی شخص بلکہ ایک مبلّغ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔[3]
سید سبطِ علی صبا (مرحوم) سید زین العابدین کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان سے پہلے دو بچیاں کم سنی میں انتقال کر چکی تھیں ۔ سبطِ علی صبا کے چھوٹے بھائی کا نام سید سبطِ حسن ہے جو رالپنڈی میں ایک پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں ۔ ان سے چھوٹی بہن قسیم فاطمہ ہیں ۔ قسیم فاطمہ سے چھوٹے بھائی کا نام سید ظہور حسین شاہ ہے، ان کے بعد بہن نجم السحر اور سب سے چھوٹے پھائی سید طاہر حسین شاہ ہیں ، جو کاروبار کرتے ہیں ۔
سید سبطِ علی صبا کے والد محترم سید زین العابدین جعفری کی عمر اس وقت اٹھتّر برس ہے۔ وہ لالہ رخ کالونی (واہ چھاؤنی) کے ایک مکان C -705 میں اپنے بیٹوں سید طاہر حسین شاہ، سید ظہور حسین شاہ اور بیٹی نجم السحر کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ۔ سید سبطِ علی صبا (مرحوم) کی والدہ محترمہ کا انتقال 1979ءمیں ہوا تھا۔ مرحومہ لالہ رخ کالونی کے بڑے قبرستان میں مدفون ہیں ۔
حواشی
1۔ خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات سید سبطِ علی صبا کے والد سید زین العابدین سے حاصل کی گئیں ۔
2۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 4 2 دسمبر 1990ء، رات آٹھ بجے، بمقام سی ۔507، لالہ خ، واہ چھاؤنی۔
3 ۔ سید زین العابدین سے راقم کی گفتگو، مؤرخہ 4 2 دسمبر 1990ء، رات آٹھ بجے، بمقام سی ۔507، لالہ خ، واہ چھاؤنی۔