’’وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا، بھاگنا چاہتا تھا، مگر پائوں گویا زمین نے پکڑ رکھے تھے، پیچھے مڑنے کے لیے بے چین تھا، مگر جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا، قریب تھا کہ وہ تڑ سے زمین پر گر کر بے ہوش ہوجاتا ، اچانک پیچھے سے کسی نے آکر اسے اٹھالیا اور انتہائی تیز رفتاری سے وہاں سے اسے دور لے جانے لگا۔
’’تمھیں وہاں جانے سے منع کیا تھا، پھر تم وہاں کیوں گئے؟‘‘ کسی نے اس سے پوچھا۔
مگر وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ اس میں جواب دینے کی بھی ہمت نہیں تھی، پھر کسی نے اسے ایک آرام دہ بستر پر لٹادیا۔
آہستہ آہستہ اسے اپنے کانوں میں مختلف قسم کی آوازیں سنائی دینے لگیں، کچھ دیر تک بھنبھناہٹ سنائی دی، پھر اسے سمجھ میں آنے لگا، اس کی امی کہہ رہی تھی:
’’اب اسے جنگل کی طرف جانے نہیں دینا، وہاں اندھیرا بہت ہے، یہ اندھیرے سے ڈرجاتا ہے۔‘‘
اندھیرا سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی ڈرائونا منظر گھومنے لگا، کتنی خوف ناک بلائیں تھیں،وہ پھر خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔
’’ یہ ہوش میں آرہا ہے۔‘‘ابو کی آواز آئی۔
’’ارے … مگر اس کا جسم اتنا کانپ کیوں رہا ہے؟‘‘ یہ اس کی امی کی آواز تھی۔
’’بیٹا! اٹھو، آنکھیں کھولو بیٹا!‘‘ امی نے اسے جھنجھوڑا۔
’’میں اب وہاں نہیں جائوں گا۔ میں اب وہاں نہیں جائوں گا۔‘‘
وہ کانپتے ہوئے ایک ہی رٹ لگا رہا تھا۔
اس کے امی ابو نے ایک دوسرے کو تشویش زدہ نگاہوں سے دیکھا۔
ایک دم سے وہاں اندھیرا چھا گیا اور بادلوں کے گرجنے کی آوازیں آنے لگیں، باہر بہت تیز بارش شروع ہوگئی تھی، بجلی کی کڑک کی وجہ سے وقفے وقفے سے کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلتی، منظر بہت خوف ناک ہوگیا تھا۔
’’مجھے بچائو، مجھے بچائو…!‘‘ وہ مارے خوف کے زور زور سے چلانے لگا، اسے پھر وہ نظر آرہا تھا…‘‘
ابھی ہم نے کہانی یہیں تک ہی پڑھی تھی کہ ہم بے اختیار رک گئے، اگرچہ کہانی کافی خوف ناک تھی، مگر ہم پڑھنے سے اس وجہ سے رک گئے کہ ہمارے گھر کی بھی بجلی چلی گئی تھی۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ ہم اندھیرے میں بیٹھے ہوئے تھے، کہانی کی کتاب ہمارے ہاتھ میں اور کہانی کا منظر دماغ میں گھوم رہا تھا، سونے پر سہاگا یہ کہ ہمارا کمرا بھی وہی نقشہ پیش کر رہا تھا جو کہانی کا تھا، گھپ اندھیرا اور کھڑکی سے آتی سائیں سائیں کرتی تیز ہوائیں!!
اور پھر کچھ دیر بعد ہم حیرت اور خوف سے اچھل کر کھڑے ہوگئے، ہمیں واقعۃً اپنے سامنے ایک سایہ سا ہلتا ہوا نظر آیا۔
’’کک…کون ہو تت… تم؟‘‘ ہم نے بڑی مشکل سے یہ جملہ ادا کیا۔
اندھیرے کی وجہ سے وہ صاف نظر نہیں آرہا تھا، ہم نے سوچا ایسا نہ ہو کہ کہانی کا منظر دماغ میں گھوم رہا ہو اور سامنے کچھ بھی نہ ہو، ہم نے پھر گھور کر اس سائے کی جانب دیکھا تو واقعی وہ سایہ ہوا میں لہرا رہا تھا۔
ہم اب تک سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ جنات کا سایہ بعض گھروں میں ہوجاتا ہے، لوگوں پر بھی ہوجاتا ہے، جن پر ہوجاتا ہے وہ پھر اپنے آپ میں نہیں رہتے، تو کیا…!
ہم یہ سوچتے ہی کانپنے لگے کہ اگر یہ سایہ ہم پر آگیا تو ہم سے بھی لوگ وحشت کھانے لگیں گے، لوگوں کی تو خیر ہے، برابر والے کمرے میں ہماری امی سورہی تھیں، اگر یہ سایہ ہم پر آگیا تو کیا ہم اپنی امی کو تنگ کریں گے، کیا ہم اپنی سب سے عزیز ہستی ماں پر حملہ آور ہوجائیں گے!
ہمارا حلق بالکل خشک ہوگیا، ٹانگیں تھرتھرانے لگیں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، آیۃ الکرسی پکی یاد تھی، مگر اس وقت دماغ پر بہت زور دینے کے باوجود زبان پر نہیں آرہی تھی۔
ہمارے ہاتھ بے اختیار اپنی جیبوں کی طرف رینگ گئے، بائیں ہاتھ کو مایوسی ہوئی، مگر دائیں ہاتھ کو مقصود حاصل ہوگیا، دائیں جیب میں موبائل تھا اور موبائل میں ٹارچ تھی اورٹارچ سے روشنی ہوجاتی اور روشنی سے سایہ بھاگ جاتااور اس طرح ہم وہاں سے کھسک کر اپنی امی کے پاس پہنچ جاتے۔
ہم نے جھٹ سے موبائل نکالا، پٹ سے اسے آن کیا اور کھٹ سے اس کی ٹارچ روشن کرنے کی کوشش کرڈالی، کوشش اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ٹارچ روشن ہونے سے پہلے موبائل بند ہوگیا، تب ہمیں اس خوف کے عالم میں یہ بات یاد آگئی کہ ہمارے موبائل کا چارج ختم ہوچکا ہے۔ کمرے میں جو تھوڑی سی روشنی ہوئی تھی، وہ دوبارہ تاریکی اور ایک عدد خوف ناک سائے کی صورت میں تبدیل ہوگئی۔
ایک خوف ناک احتمال یہ بھی دماغ میں آیا کہ اگر یہ سایہ ہماری بجائے امی پر چلا گیا تو کیا ہوگا، ہماری انتہائی محبت کرنے والی امی ہمارے لیے جان لیوا ثابت ہوجاتیں اور پھر ہمیں اپنے بچائو کے لیے اپنی امی پر ہاتھ اٹھانا پڑتا، توبہ، توبہ! ایک سائے اور اس سے متعلق اتنے سارے خوف ناک خیالات نے ہمارے دماغ کی چولیں ہلاکر رکھ دیں۔
ہم نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا شروع کردیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں مدد حاصل ہونا شروع ہوگئی، سچ ہے جو مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ضرور ملتی ہے، ایک وہی تو ذات ہے جو ہر مصیبت اور پریشانی میں ہمارے لیے سہارا بنتی ہے، اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جسے ہم اپنی ہر قسم کی پریشانی میں یاد رکھ سکیں۔
معاً ہمارے دماغ میں یہ خیال بھی آیا کہ جس ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس سائے کو بھی اسی نے تو بنایا ہے، اگر وہ ہماری مدد کرے تو یہ ایک سایہ کیا اس جیسے ہزاروں سائے بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
ہاں تو ہم بتارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں مدد ملنا شروع ہوگئی، وہ اس طرح کہ ہماری زبان پر آہستہ آہستہ آیۃ الکرسی کے الفاظ جاری ہونے لگے، جوں جوں ہم آیۃ الکرسی پڑھتے گئے، ہمیں اطمینان کی کیفیت حاصل ہوتی گئی اور پھر جیسے ہی آیۃ الکرسی ختم ہوئی ایک دم سے بجلی آگئی۔
’’الحمد ﷲ!‘‘بے اختیار ہماری زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد جاری ہوگئی ، اب ہم نے ہمت کرکے آنکھیں اٹھا کر اس سائے کی جانب دیکھا۔
’’دھت تیرے کی…!‘‘ ہم ہونٹ بھینچے دروازے کی جانب دیکھنے لگے، جہاں ہماری پیاری سی امی کا کالا سیاہ برقع دھیرے دھیرے ہوا میں لہرا رہا تھا۔
 

ماہا عطا

محفلین
بہت خوب ذرا اپنا خوصلہ بلند کریں دن ہو یہ رات ہمی ڈرنا نہیں چاہیے۔۔سوائے خدا کی ذات کہ۔۔۔۔بہت خوب لکھا۔۔۔۔۔خوش رہیں
 
بہت خوب ذرا اپنا خوصلہ بلند کریں دن ہو یہ رات ہمی ڈرنا نہیں چاہیے۔۔سوائے خدا کی ذات کہ۔۔۔ ۔بہت خوب لکھا۔۔۔ ۔۔خوش رہیں
حوصلہ بلند تھا جبھی تو ایسی کہانی لکھی کہ لوگ بلند حوصلے کی باتیں کرنے لگے۔:)
تعریف کرنے اور پسند کرنے کا شکریہ۔
اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔
 

نیلم

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے اُسامہ بھائی
اللہ تعالی کے نام کے بیچ میں اسپیس نہیں دی آپ نے :)
 
Top