مصطفیٰ زیدی سایہ مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
دُھواں دُھواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی
ہر ایک سمت سے چیخیں سنائ دیتی ہیں
صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی

گھنے درخت ، درو بام ، نغمہ و فانوس
تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابوس
ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلوم
ہر ایک موڑ پہ ارواحِ زِشت و بد کا جلوس

سفید چاند کی اجلی قبائے سیمیں پر
سیاہ و سرد کفن کا گماں گزرتا ہے
فَضا کے تخت پہ چمگادڑوں کے حلقے ہیں
کوئ خلا کی گھنی رات سے اترتا ہے

تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
کوئ چراغ جلاو ، کوئ حدیث پڑھو
کوئ چراغ بہ رنگِ عزارِ لا لہ رخاں
کوئ حدیث باندازِ صدقہءِ دل و جاں
کوئ کِرن پئے تز ئینِ غُرفہ و محراب
کوئ نوا پئے درماندگاں و سوختہ جاں

سناہے عالمِ روحانیاں کے خانہ بدوش
سحر کی روشنیوں سے گریز کرتے ہیں
سحر نہیں ہے تو مشعل کا آسرا لاو
لبوں پہ دل کی سلگتی ہوئ دعا لاو
دلوں کے غُسلِ طہارت کے واسطے جا کر
کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لاو

ہر اک قبا پہ کثافت کے داغ گہرے ہیں
لہو کی بوند سے یہ پیرہن دھلیں تو دھلیں
ہوا چلے تو چلے بادباں کھلیں تو کھلیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب علی صاحب۔ مصطفیٰ زیدی کی میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک۔ بہت شکریہ جناب! خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ :)
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ علی فاروقی صاحب،ماشا اللہ کیا خوب انتخاب ہے واہ، شکریہ پیش کرنے کو۔
( ایک گزارش: نظم میں کئی املا کی اغلاط ہیں انہیں درست کرلیں، مثلاً عذار (ذ) سے ہے (ز ) سے نہیں، جہاں جہاں ’’ ؤ ‘‘ ہونا تھا وہاں آپ نے ’’و‘‘ روا رکھا،محفل کے اردو کلیدی تختے میں ’’ ؤ ‘‘ شفٹ wسے ممکن ہے ، ) بہت بہت شکریہ
 
Top