سامان میں انسان

خرد اعوان

محفلین
گرینچ 13:08 - 10/09/2003

بی بی سی اردو نیوز

امریکہ میں ایک شخص نے کرایہ بچانے کی غرض سے اپنے آپ کو سامان لے جانے والے بڑے ڈبے یعنی کریٹ میں بند کر کے ہوائی جہاز کے کارگو کے طور پر نیو یارک سے ٹیکساس بھجوا دیا۔

اب حکام ایسے واقعات کےسکیورٹی مضمرات پر پریشان ہیں۔

پچیس سالہ چارلز ڈی مکِنلی کا تعلق امریکی ریاست ٹیکساس سے ہے لیکن وہ نیو یارک کی ایک شپِنگ کمپنی میں ملازم تھے اور بقول ان کے ان کو گھر بہت یاد آرہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک دوست نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ہوائی کارگو کے ذریعے اپنے آپ کو ٹیکساس بھجوا دیں تاکہ ان کا کرایہ بچ جائے۔

چارلز مکِنلی نے سامان برداری کا پانچ سو پچاس ڈالر خرچہ اپنے مالکان کے کھاتے میں ڈال دیا۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو کریٹ میں بند کیا اور نیو یارک سے ٹیکساس کے شہر دے سوٹو تک اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ پورا سفر گزر گیا اور کسی کو ان کی موجودگی کا پتہ نہیں چلا حالانکہ وہ کئی مرتبہ کریٹ سے نکل کر تھوڑا سا ٹہلے۔

چارلز مکِنلی نے بتایا ہے کے وہ پندرہ گھنٹے کے اس سفر کے دوران سوچتے رہے کہ ’آخر میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟‘ اور ان کو خطرہ رہا کہ کوئی ان کو دیکھ ضرور لےگا۔

لیکن ان کی موجودگی کا صرف تب پتہ چلا جب کریٹ ان کے والدین کے گھر پہنچانے والے شخص نے ان کو کریٹ سے نکلتے دیکھ لیا اور اس نے فوراً پولیس کو ٹیلی فون کر دیا۔

چارلز مکِنلی کو گرفتار کر لیا گیا اور اب ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی کے حکام اس واقعہ سے اٹھنے والے سوالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

امریکہ میں گیارہ ستمبر سن دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد سے سکیورٹی کے ہر پہلو پر سختی کر دی گئی ہے لیکن اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایئر کارگو کی سکیورٹی پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔

مسافر پروازوں کی نسبت سامان بردار طیاروں کی سکیورٹی پر کم توجہ دی جاتی ہے کیونکہ ان میں سامان کی بہت بڑی تعداد آتی جاتی ہے۔ بقول ایف بی آئی کے ڈائریکٹر روبرٹ مِلر ہر کریٹ اور ہر پیکٹ کو کھول کر چیک کرنا نا ممکن ہے۔

چارلز مکِنلی پر اب دیگر الزامات ہیں لیکن وہ صحیح سلامت اپنے منزل پر پہنچ گئے جبکہ اس کا بر عکس بھی ہو سکتا تھا۔ بقول سامان بردار ہوائی کمپنی کے سربراہ ’وہ شحص مر سکتا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کے جن کیبنوں میں کریٹ کو رکھا گیا ان میں ہوا کے دباؤ کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔‘
 

زین

لائبریرین
اوپر تاریخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 10/09/2003
لکھی ہے ۔ یعنی سال نہیں پانچ سال پرانی خبر ہے ۔
 
Top