آتش ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا
دکھلا دے جامِ مے میں مجھے چاند عید کا

موقع ہوا نہ اُس رخِ روشن کی دید کا
افسانہ ہی سنا کیے ہم صبحِ عید کا

افسانہ سنیے یار کا ذکر اُس کا کیجیے
مقصود ہے یہی مری گفت و شنید کا

شیدائے حسنِ یار کس اقلیم میں نہیں
محبوب ہے وہ ماہ قریب و بعید کا

حاضر ہے چاہے جو کوئی نعمت فقیر کی
شیریں کلام اپنا ہے توشہ فرید کا

مریخ کا ہے ظلم و ستم کس شمار میں
پیرِ فلک کو رتبہ ہے تیرے مرید کا

حجت دہانِ یار میں کیونکر نہ کیجیے
منظور ہے ثبوت ہمیں ناپدید کا

لیتا ہے بوسہ دے کے وہ سیمیں عذار دل
یہ حال عاشقوں کا ہے جو زر خرید کا

آرائش اُن کی قتل کرے ہم کو بے گناہ
درکار مہندی گندھنے کو ہو خوں شہید کا

بندِ قبائے یار کے عقدے ہوں لاکھ قفل
گستاخ ہاتھ کام کریں گے کلید کا

دل بیچتے ہیں عاشقِ بے تاب لیجیے
قیمت وہ ہے جو مول ہو مالِ مزید کا

اپنی طرف اُن ابروؤں کے رخ کو پھیریے
اللہ زور دے جو کماں کی کشید کا

سودائیوں کو حاکمِ ظالم سے ڈر نہیں
داغِ جنوں ہر ایک نگیں ہے حدید کا

اُس رخ پہ ابروؤں سے مسوں کو سمجھ نہ کم
ہر آیہ ہے فیصح کلامِ مجید کا

کنجِ قفس میں پہنچی صبا لے کے بوئے گل
خط آ گیا بہارِ چمن کی رسید کا

شادیِ بے محل سے بھی ہوتا ہے دل کو غم
اندوہ طفل جمعہ کو ہوتا ہے عید کا

قاتل رہا کرے گی شبِ جمعہ روشنی
کوچے میں تیرے ڈھیر ہو تیرے شہید کا

موسیٰ کی طرح ہم کو بھی دیدار کا ہے شوق
آنکھوں کو حوصلہ ہے تجلی کی دید کا

صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ بیں
رخ پر یقین ہے اُنہیں شکلِ سعید کا

چسپاں بدن سے یار کے ہو کر قبائے ناز
حیران کار رکھتی ہے قطع و برید کا

بے جرم تیغِ عشق سے دل ہو گیا ہے قتل
سینہ مرا مقام ہے مردِ شہید کا

دیوانہ زلفِ یار کی زنجیر کا ہے دل
رہتا ہے صدمہ روح کو قیدِ شدید کا

خوں ریز جس قدر کہ ہو اُس سے عجب نہیں
آتش فراقِ یار پدر ہے یزید کا

(خواجہ حیدر علی آتش)
 
Top