ناصر کاظمی سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن

سارہ خان

محفلین
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
تو گرفتارِ بلا غور سے سُن
دل تڑپتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سُن
اسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سُن
اسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سُن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ!
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن
موت اور زیست کے اسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سُن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سُن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لَے کو ذرا غور سے سُن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سُن
برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سُن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سُن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سُن
عشق کو حُسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سُن
دل سے ہر وقت کوئ کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سُن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سُن


شاعر : ناصر کاظمی ۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترمہ سارہ خان جی
سدا خوش و آباد رہیں آمین
ماشااللہ بہت اچھا کلام شئیر کیا ہے آپ نے ۔
بہت شکریہ
اللہ کرے ذوق علم و ادب اور زیادہ آمین
نایاب
 

سارہ خان

محفلین
وعلیکم السلام نایاب جی ۔۔ بہت شکریہ پسندیدگی اور دعاؤں کا ۔۔۔ آپ پر بھی اللہ کی رحمتیں ہوں ۔۔ آمین۔۔۔:)

باقی سب کی پسندیدگی کا بھی بہت شکریہ ۔۔۔
 
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
تو گرفتارِ بلا غور سے سُن
دل تڑپتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سُن
اسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سُن
اسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سُن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ!
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن
موت اور زیست کے اسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سُن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سُن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لَے کو ذرا غور سے سُن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سُن
برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سُن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سُن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سُن
عشق کو حُسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سُن
دل سے ہر وقت کوئ کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سُن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سُن
ناصر کاظمی
 
Top