امیر مینائی سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔ امیر مینائی

فاتح

لائبریرین
یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے

ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے

کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے

واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں
منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے

آنکھوں کے نیچے پھِرتی ہے تصویر یار کی
پُتلی سی اک بندھی ہوئی تارِ نظر میں ہے

کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک
سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے

پہلو میں میرے دل کو نہ، اے درد! کر تلاش
مدت ہوئی تباہی کا مارا سفر میں ہے

تُلسی کی کیا بہار ہے دندانِ یار پر
سوسن کا پھول چشمۂ آبِ گہر میں ہے

ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں
دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے

صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے

قاصد کو ہاتھ داغ کے بھیجا ہے یار نے
خاکی نئی رسید کفِ نامہ بر میں ہے

تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑ پر
اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے

تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو
میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے

ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی
پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

(امیر مینائی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! آخر آپ نے اس مشہورِ زمانہ شعر کی غزل ڈھونڈ ہی لی۔ واہ جناب بہت ہی عمدہ۔ آخر آپ کے طفیل ہمیں بھی مکمل غزل پڑھنے کی سعادت نصیب ہو ہی گئی۔ بہت شکریہ فاتح صاحب۔ اس شعر کو ذرا دوبارہ دیکھ لیجیے۔

تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑپر
اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب، امید صاحبہ اور فرخ صاحب۔

واہ واہ! آخر آپ نے اس اس مشہورِ زمانہ شعر کی غزل ڈھونڈ ہی لی۔ واہ جناب بہت ہی عمدہ۔ آخر آپ کے طفیل ہمیں بھی مکمل غزل پڑھنے کی سعادت نصیب ہو ہی گئی۔ بہت شکریہ فاتح صاحب۔ اس شعر کو ذرا دوبارہ دیکھ لیجیے۔

تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑپر
اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے
امیر کے دیوان کے اس سکین شدہ صفحے کے کنارا کٹا ہوا ہے اور یہی وجہ رہی کہ "توڑ" تو درست ہے لیکن "تیر" کا لفظ ہم نے اندازے سے ہی لکھا ہے۔ آپ بھی دیکھیے اور اندازہ لگائیے تا کہ اسے درست کیا جا سکے:
BookReaderImages.php
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔ یہ تو تیر ہی ہو گا لیکن یہ توڑ کی اس شعر میں سمجھ نہیں آئی۔ آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔ یہ تو تیر ہی ہو گا لیکن یہ توڑ کی اس شعر میں سمجھ نہیں آئی۔ آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟
توڑ کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ تیر کتنی دور یا کتنی گہرائی تک مار کر سکتا ہے۔

فرہنگ آصفیہ کے مطابق:
توڑ: پٹہ، انتہا، گولی یا گولے کی مقدارِ مسافت
سخت جانی نے کیا تن کو حصارِ آہنی
آج تیرے تیر کا دیکھیں گے اے خونخوار توڑ
(جلال)
 

الف عین

لائبریرین
۔۔ہمارے جگر میں ہے
شکریہ فاتح، آخر یہ شعر بہ حقدار رسید!!
’توڑ‘ کو تو میں نے ان مفہوم میں لیا کہ جس کو انگریزی میں counter کہتے ہیں، یا تریاق یا antidote بھی۔ یعنی تیر اور نظر میں وہی تعلق ہے جو زہر اور تریاق میں ہو سکتا ہے۔ محاورہ بھی ہے کہ ان کا توڑ ملا ہے، یعنی ان کے مقابلے کا کوئی ملا ہے۔
 

بلال حیدر

محفلین
کسی بھائی کے پاس حضرت امیر کی یہ غزل ہو گی؟

تو نے بُتِ ہرجائی کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تری صورت ہر ایک تماشائی
 
Top