سادگی تو ہماری ذرا دیکھئے اعتبار آپ کے وعدے پر کر لیا

دوست

محفلین
سادگی تو ہماری ذرا دیکھئے اعتبار آپ کے وعدے پر کر لیا
بات تو صرف اک رات کی تھی مگر انتظار آپ کا عمر بھر کر لیا

عشق میں الجھنیں پہلے ہی کم نہ تھیں اور پیدا نیا دردِ سر کر لیا
لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائیں سے ہم نے قاتل کے دل میں بھی گھر کر لیا

ذکر اک بے وفا اور سِتَم گَر کا تھا آپ کا ایسی باتوں سے کیا واسطہ
آپ تو بے وفا اور سِتَم گَر نہیں آپ نے کس لیے منہ اُدھر کر لیا

زندگی بھر کے شکوے گلے تھے بہت، وقت اتنا کہاں تھا کہ دوہراتے ہم
ایک ہچکی میں کہہ ڈالی سب داستاں، ہم نے قصے کو یوں مختصر کر لیا

بے قراری ملے گی مجھے نہ سکوں، چین چھن جائے گا نیند اُڑ جائے گی
اپنا انجام سب ہم کو معلوم تھا، آپ دل کا سودا مگر کر لیا

زندگی کے سفر میں بہت دور تک جب کوئی دوست آیا نہ ہم کو نظر
ہم نے گھبرا کے تنہائیوں سے صباؔ، ایک دشمن کو خود ہم سفر کر لیا

 
آخری تدوین:
Top