ساحر لدھیانوی

قیصرانی

لائبریرین
پیارے دوستو، ساحر لدھیانوی کی شاعری کا سب سے مشہور حصہ ان کے فلمی گیت ہیں۔ ذیل میں ان کی شاعری سے کچھ مختصر انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں ان کی تین مشہور نظمیں بھی شامل ہیں جن کے نام “چکلہ“، “عورت نے جنم دیا مردوں کو“ اور “کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“ ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
ردِ عمل

چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
تاج محل

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
مرے گیت

مرے سرکش ترانے سن کر دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں‌سے نفرت ہے

مجھے ہنگامہ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
مری فطرت کو خوں ریزی کے افسانوں سے رغبت ہے

مری دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا محبوب نغمہ شورِ آہنگِ بغاوت ہے

مگر اے کاش دیکھیں وہ مری پرسوز راتوں کو
میں‌جب تاروں‌ پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں

تصور بن کے بھولی وارداتیں یاد آتی ہیں
تو سوز و درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں

کوئی خوابوں میں‌ خوابیدہ امنگوں‌کو جگاتی ہے
تو اپنی زندگی کو موت کے پہلو میں ‌پاتا ہوں

میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمن نغمہ سرائی ہو نہیں‌سکتا

مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا

جواں‌ ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری باتوں‌ میں رنگ پارسائی ہو نہیں‌سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے، تو اتنی ہے
کہ جب میں‌دیکھتا ہوں‌بھوک کے مارے انسانو‌ں‌کو

غریبوں، مفلسوں‌کو، بےسکوں‌کو، بے سہاروں‌کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں‌کو

حکومت کے تشدد کو، امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو، اور شہنشاہی خزانوں کو

تو دل تابِ بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
چکلے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں؟ کہاں‌ ہیں محافظِ خودی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

تعفن سے پُر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح‌کمروں‌میں کھانسی کی ٹھن تھن
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں‌پر
یہ چاروں‌طرف بھیڑ سی کھڑکیوں‌پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں‌پر
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں‌کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں‌کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں ‌کی طرف
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں‌کی جانب
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی، ابا میاں‌ بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں‌ بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

ذرا ملک کے رہبروں‌کو بلاؤ
یہ کوچھے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
بنگال

جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں‌کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا؟
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں

چمن کو اسی لیے مالی نے خوں‌ سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں‌کی قوتِ تخلیق کے خداوندو!
ملوں‌کے منتظمو! سلطنت کے فرزندو!

پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دم توڑتی نگاہوں‌سے
بشر، بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
مادام

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں‌ ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جٍلا
ہم جہاں‌ہیں وہاں‌ تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک، آداب کے سانچوں‌میں ڈھل نہیں‌سکتی

لوگ کہتے ہیں تو لوگوں ‌پہ تعجب کیسا؟
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں۔۔۔۔۔مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیئے غریبوں میں شرافت کیسی

نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے میعار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے، لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں‌محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں‌کو حنا بخشی ہے

لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں‌گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میں جہاں‌ہوں، وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
نور جہاں‌کے مزار پر

پہلوئے شاہ میں‌یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں‌ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں‌کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں ‌میں ‌جواں جسموں‌کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوں‌کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں‌ ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ‌ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں‌ کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں‌مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
حیات

حیات اک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید
خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسو بن کے آتی ہے​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
کون جانے

کون جانے مرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹی ہوئی رنگین نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
جاگیر

پھر اسی وادئ شاداب میں لوٹ آیا ہوں
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواں‌جسم، حسیں بانہیں ہیں

سبز کھیتوں‌ میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوں‌میں‌کس کس کا لہو جاری ہے
کس میں جرات ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے

ہائے وہ گرم و دل آویز ابلتے سینے
جن سے ہم سطوتِ آبا کا صلہ لیتے ہیں
جانے ان مرمریں جسموں کو یہ مریل دہقاں
کیسے ان تیرہ گھروندوں میں‌جنم دیتے ہیں

یہ لہکتے ہوئے پودے یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے، اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی، یہ کسان
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں، سب میرے ہیں

ان کی محنت بھی مری، حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے، قوتِ بازو بھی مری
میں خداوند ہوں‌اس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری، نکہتِ گیسو بھی مری

میں ان اجداد کا بیٹا ہوں‌جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
ان کی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیں‌گی
ان کی غیرت پہ ہر اک ہاتھ جھپٹ سکتا ہے
ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں

ہائے یہ شام، یہ جھرنے، یہ شفق کی لالی
میں ان آسودہ فضاؤں میں‌ ذرا جھوم نہ لوں
وہ دبے پاؤں ادھرکون چلی جاتی ہے
بڑھ کے اس شوخ کے ترشے ہوئے لب چوم نہ لوں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
عورت نے جنم دیا مردوں کو

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسئلہ کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا

تلتی ہے کہیں‌ دیناروں میں، بکتی ہے کہیں‌ بازاروں‌میں
ننگی نچوائی جاتی ہے، عیاشوں کے درباروں‌ میں
یہ وہ بے غیرت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں‌ میں

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

مردوں‌کے لیے ہر ظلم روا، عورت کے لئے رونا بھی خطا
مردوں کے لیے لاکھوں ‌سیجیں، عورت کے لئے بس ایک چتا
مردوں‌کے لیے ہر عیش کا حق، عورت کے لئے جینا بھی سزا

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

جن سینوں‌نے ان کو دودھ دیا، ان سینوں‌کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا، اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اگے کونپل بن کر، اس تن کو ذلیل و خوار کیا

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

مردوں‌نے بنائیں جو رسمیں ان کو حق کا فرمان کہا
عورت کے زندہ جلنے کو، قربانی اور بلیدان کہا
عصمت کے بدلے روٹی دی اور اس کو بھی احسان کہا

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

سنسار کی ہر اک بے شرمی، غربت کی گود میں‌ پلتی ہے
چکلوں میں‌ہی آکر رکتی ہے، فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے
مردوں‌کی ہوس ہے جو اکثر، عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

عورت سنسار کی قسمت ہے، پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے
اوتار پیمبر جنتی ہے، پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بدقسمت ماں ‌ہے جو، بیٹوں‌کی سیج پہ لیٹی ہے

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
موت

موت آگئی نہ ہو مرے ذوقٍ امید کو
محرومیوں‌ میں‌ کیف سا پانے لگا ہوں‌میں​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
پردہ شب

وہاں‌ بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردہ شب کو
جہاں‌ہر صبح کے دامن پہ عکسِ شام ہے ساقی​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌ کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
جانے وہ کیسے لوگ تھے

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں‌مانگیں، کانٹوں‌کا ہار ملا

خوشیوں‌کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی

دل کے بوجھ کو دونا کر گیا جو غم خوار ملا

بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا

اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یوں ہی جی لیں گے
اُف نہ کریں‌گے، لب سی لیں‌گے، آنسو پی لیں‌گے

غم سے اب گھبرانا کیسا، غم سو بار ملا
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
ایک شام

قمقموں کی زہر اُگلتی روشنی
سنگدل، پرہول دیواروں کے سائے
آہنی بت دیو پیکر اجنبی
چیختی چنگھاڑتی خونیں سرائے

روح الجھی جا رہی ہے، کیا کروں

چار جانب ارتعاشِ رنگ و بُو
چار جانب اجنبی باہوں‌کے جال
چار جانب خوں فشاں پرچم بلند
میں، مری غیرت، مرا دستِ سوا

زندگی شرما رہی ہے، کیا کروں؟

کارگاہِ زیست کے ہر موڑ پر
روحِ چنگیزی برافگندہ نقاب
تھام! اے صبحِ جہانِ نو کی ضو
جاگ اے مستقبلِ انساں کے خواب

آس ڈوبی جا رہی ہے، کیا کروں؟
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
پھر نہ کیجے

پھر نہ کیجے مری گستاخ‌ نگاہی کا گِلہ
دیکھئے، آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھے​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
اُسی دوراہے پر

اب نہ اِن اونچے مکانوں‌ میں قدم رکھوں گا
میں اِک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اپنی نادار محبت کی شکستوں‌کے طفیل
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی، جھنجلائی تھی

اور یہ عہد کیا تھا کہ بہ ایں حالِ تباہ
اب کبھی پیار بھرے گیت نہیں‌ گاؤں گا
کسی چلمن نے پکارا بھی تو بڑھ جاؤں گا
کوئی دروازہ کھلا بھی تو پلٹ آؤں گا

پھر، ترے کانپتے ہونٹوں‌ کی فسوں‌کار ہنسی
جال بننے لگی، بنتی رہی، بنتی ہی رہی
میں کھنچا تجھ سے، مگر تو مری راہوں‌کے لئے
پھول چنتی رہی، چنتی رہی، چنتی ہی رہی

برف رسائی مرے ذہن و تصور نے مگر
دل میں اک شعلہ بے نام سا لہرا ہی گیا
تیری چپ چاپ نگاہوں کو سلگتے پا کر
میری بیزار طبیعت کو بھی پیار آہی گیا

اپنی بدلی ہوئی نظروں کے تقاضے نہ چھپا
میں اس انداز کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں
تیرے زرکار دریچوں کی بلندی کی قسم
اپنے اقدام کا مقسوم سمجھ سکتا ہوں

“اب نہ ان اونچے مکانوں ‌میں‌ قدم رکھوں ‌گا“
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اسی سرمایہ و افلاس کے دوراہے پر
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی، جھنجلائی تھی​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
فن کار

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دُکان پہ نیلام اٹھے گا ان کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں‌کو
مفلسی۔۔۔۔جنس بنانے پر اتر آئی ہے

بھوک، تیرے رُخِ رنگیں کے فسانوں‌ کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنا ہے

دیکھ اس عرصہ گہِ محنت وہ سرمایہ ہیں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں‌ رہ سکتے

تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں‌کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے​
 
آخری تدوین:
Top