سات پریشان کن سائنسی دریافتیں

7-preshankun-science-300x336.png

۲ سو برس میں سائنس نے بنی نوع انسان کو کئی فوائد پہنچائے ہیں۔ سائنسی دریافتوں کی بدولت ہی اب انسان آرام و آسائش کی زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برس میں کچھ ایسی دریافتیں بھی سامنے آئیں جو ہمارے لیے تشویش کاباعث اور خاصی پریشان کن بن گئیں۔ انھی دریافتوں میں سے ۹ کا ذکر درج ذیل ہے:
۱۔جراثیم ہم پر غالب آ رہے ہیں​
اینٹی بائیوٹک ادویہ اور ویکسین اب تک لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جانیں بچا چکی ہیں۔ اگر جدید طب کے یہ کرشمے نہ ہوتے تو یقینا ہزارہا بچے پولیو، چیچک، خسرہ وغیرہ کے باعث اگلے جہان پہنچ چکے ہوتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض بیماریوں کے جراثیم اتنی تیزی سے افزائش پذیر ہیںکہ ابھی ایک بیماری ختم کرنے کی دوا ایجاد نہیں ہوتی کہ دوسری سامنے آ جاتی ہے۔​
مثال کے طور پر جنوری ۲۰۱۳ء میں انفلوئنزہ وائرس کی نئی قسم سامنے آ چکی۔ چنانچہ پچھلے سال کی ویکسین عموماً اسے ختم نہیں کر پاتی۔ اسی طرح خصوصاً غریب ممالک کے ہسپتالوں میں اینٹی بائیوٹک دوا سے ختم نہ ہونے والا جرثومہ، سٹافائلوکوکس (Staphylococcus) عام ملتا ہے۔ یہ جرثومہ عام زخم میں چھوت پیدا کر کے انسانی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔​
مزید برآں جانوروں سے انسانوں میں نت نئی بیماریاں منتقل ہو رہی ہیں۔ مثلاً بندروں سے ایبولا (Ebola)، مشک بلائو سے سارس (SARS)، کترنے والے جانوروں سے ہانٹا وائرس (Hanta virus)، پرندوں سے برڈ فلو اور خنزیر سے سوائن فلو نامی بیماریاں۔​
حتیٰ کہ فلسفی فریڈرک شوپن اور امریکی صدر ہنری ڈیوڈ تھیورد کی جان لینے والا دق بھی واپس آچکا۔ دراصل اس مرض کی بعض اقسام اپنے اندر اینٹی بائیوٹک ادویہ سے موافقت پیدا کر چکی ہیں۔ لہٰذا ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیماری اکیسویں صدی میں بھی انسانوں کو نشانہ بنائے گی۔ اسی لیے اس سائنسی دریافت نے لوگوں کو اتنا خوف زدہ کر دیا ہے کہ پالتو جانوروں کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی بیماری ان کی منتظر ہوتی ہے۔​
۲۔ چھٹی معدومی کا آغاز​
ماہرین اثریات کا کہنا ہے کہ ماضی میں مختلف وجوہ (شہاب ثاقب کی گرد، آتش فشاں پھٹنے، آب و ہوا میں تبدیلیوں) کی بنا پر معدومی (Extinction) کے چھ دور جنم لے چکے۔ ان ادوار میں کرہ ارض سے جانوروں کی کئی اقسام اور نسلیں ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئیں۔​
حیاتیات ماہرین کی رو سے بیسویں صدی میں ’’چھٹی عظیم معدومی‘‘ کا آغاز ہو چکا۔ اس دور میں چرند پرند کی کئی نسلیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور اب بڑے جانوروں کی باری آ رہی ہے۔ مثلاً شمالی امریکا میں ممدندا (Mastodon)، آسٹریلیا میں دیوہیکل کینگرو اور یورپ میں بونے ہاتھی مٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔​
پہلے ۵ ادوار معدومی کی وجوہ واضح نہیں، لیکن چھٹی کا باعث واضح طور پر انسان بنے ہیں۔ حد سے زیادہ شکار، جنگلات کی تباہی، امراض کے پھیلنے اور بیرونی نسلیں متعارف کرانے کے باعث دنیا بھر میں کئی حیوان معدوم ہو رہے ہیں۔​

۳۔ آپ کا دماغ اپنا نہیں​
گزشتہ ایک سو برس میں ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے کئی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے کم ازکم ایک نظریے پہ سائنس دانوں نے مہر تصدیق ثبت کر دی… وہ یہ کہ ہمارے کئی رویّے، جذبات اور یقین ان عناصر کی وجہ سے جنم لیتے ہیں جنھیں ہم نہیں جانتے۔​
مثال کے طور پر اگر آپ کا مزاج خوشگوار اور امید پرستانہ ہے تو موسم کی خبر لیجیے۔ جب سورج نکلا ہوا اور ماحول تروتازہ ہو تو لوگ عموماً خوش ہوتے اور مددگار بنتے ہیں۔ اسی طرح ذائقہ چکھنے کے امتحان میں جو نمونہ انسان پہلے چکھے، وہی اسے پسند آتا ہے، چاہے جتنے بھی نمونے چکھ لے۔ اسی طرح ہم جس شخص یا شے کو بار بار دیکھیں تو وہ ہمیں پسند آنے لگتی ہے۔​
حال ہی میں ماہرین نفسیات نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ میں یادیں پختہ نہیں ہوتیں اور ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انسان اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق کسی بھی واقعے کو منفی یا مثبت رنگ دے ڈالتا ہے اور حیران کن طور پر اس کی یادیں بھی اسی زاویہ نگاہ کے مطابق ڈھل جاتی ہیں۔
۴۔ ہم دنیا کی آب و ہوا تبدیل کر چکے​
دنیا بھر میں عالمی گرمائو (گلوبل وارمنگ) اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کے حوالے سے شور برپا ہے۔ کئی لوگ اس اُعجوبے کو پیچیدہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بہت سادہ ہے۔ ہم جب ایندھن (پٹرول، کوئلہ، گیس) جلائیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ یہ گیس فضا میں پہنچتی، زمین سے اٹھنے والی حرارت دبوچتی اور اسے واپس کرہ ارض کی طرف پھینک دیتی ہے۔​
اسی غیر فطری عمل کے باعث دنیا میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ پہاڑوں پر گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ پھول وقت سے پہلے کھلتے ہیں اور جانور اور پودے ٹھنڈک کی تلاش میں بلندیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے خطرناک بات یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آنے والے کئی سو برس تک فضا میں موجود رہے گی۔ نیز انسانوں کی پیدا کردہ آب و ہواکی تبدیلیوں کے اثرات اب عیاں ہونے لگے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آنے والی صدیوں میں خوفناک حالات حضرت انسان کے منتظر ہیں۔​

۵۔کائنات کا بیشتر حصہ غیر مرئی مادے سے بنا ہے​
ہماری کائنات میں مختلف اشیاء موجود ہیں مثلاً سیارے، ستارے، سیاہ سوراخ، مٹی، گیسیں وغیرہ۔ لیکن کائنات کا صرف ۴ فیصد حصہ ہمیں نظر آتا ہے۔ بقیہ حصے کی ۲ اقسام ہیں جو نہ دکھائی دینے والا مادہ ہے۔ پہلی قسم ’’سیاہ مادہ ‘‘ (Dark Matter) کہلاتی ہے جو غیر مرئی مادے کا ۲۳ فیصد حصہ ہے۔ دوسری قسم ’’سیاہ توانائی‘‘ ہے جو ہماری کائنات کے ۷۳ فیصد حصے پر مشتمل ہے۔​
سائنس داں سیاہ مادے کے متعلق کچھ نظریات رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ انتہائی متحرک اور چھوٹا ہو گا۔ لیکن انھیں سیاہ توانائی کی بابت کچھ خبر نہیں۔ دور جدید کے سبھی بڑے ماہرین کی یہی رائے ہے کہ سیاہ توانائی دنیائے سائنس کا سب سے پُراسرار راز ہے۔​
اس وقت پوری دنیا میں سائنسی ماہرین اس کوشش میں ہیں کہ سیاہ مادے اور توانائی کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں۔ یوں ہم اس کائنات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے جس میںہم رہتے بستے ہیں۔ گو وہ سیاہ مادے کے ذریعے یہ ضرور جان چکے ہیں کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ یہ جان کاری خاصی خوفناک ہے۔ کیونکہ کائنات کے پھیلائو کی وجہ سے چاہے اربوں سال بعد ہی سہی، ایک دن ایسا آئے گا کہ کائنات میں ہر شے ایک دوسرے سے بہت دور ہو جائے گی۔ تب وہاں زندگی کا نام و نشان نہیں ہو گا اور زمین؟ وہ تو تین چار ارب سال بعد ہی پھیلتے سورج میں غتربود ہو جائے گی۔​
۶۔ لذیذ غذائیں نقصان دہ ہیں​
بچے ہوں یا بڑے بوڑھے، سبھی بھنا گوشت، تلے آلو، کیک، بسکٹ، پیزا وغیرہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن سائنس دانوں نے تحقیق کے بعد دریافت کیا ہے کہ جو غذا جتنی مزے دار ہو، وہ صحت کے لیے اتنی ہی نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برگر، تلے گوشت وغیرہ کھا کھا کر انسان موٹاپے، ذیابیطس جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔​
لہٰذا اگر آپ خود کو وقت سے پہلے گور(قبر) میں پہنچانا چاہتے ہیں تو لذیذ کھانے بصد شوق کھائیے۔ لیکن صحت عمدہ کرنی ہے تو سبزیاں یا پھل دستر خوان پہ سجائیے۔​
۷۔انسانوں کی قربانی عام تھی​
ہمارے مذہب کی رُو سے انسان دنیا میں اچھے کام اور نیکیاں کرے تو آخرت میں اسے جنت ملنا یقینی ہے۔ قدیم انسانوں کی نسبت یوں ہم خوش قسمت ہیں۔ قدیم اقوام مثلاً مصری، چینی اور بعض ہندو قبائل سمجھتے تھے کہ انسان مرنے کے بعد نئی زندگی گزارتا ہے۔ لہٰذا جب کوئی بادشاہ یا سردار مرتا تو اس کے ملازم اور کنیزیں بھی قتل کر دی جاتیں۔ مدعا یہ ہوتا کہ وہ اس زندگی میں بھی بادشاہ کی خدمت کر سکیں۔​
یہ انکشاف اثریاتی تحقیق اور شہادتوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اب دنیا بھر میں ماہرین آثار قدیمہ کی سعی سے مزید چشم کشا باتیں سامنے آئی ہیں۔ مثلاً جنوبی امریکا کی قدیم آزٹک قوم نے ٹینوچٹیٹلان نامی عظیم معبد کا سنگ بنیاد رکھا تو ہزارہا قیدی اس کے سامنے قربان کردیے۔ اسی طرح جب مایا قوم میں ٹیمیں بال گیم کھیلتیں تو کئی بار ہارنے والی ٹیم دیوتائوں کے حضور بھینٹ چڑھا دی جاتی۔​
ان انکشافات سے عیاں ہے کہ قدیم انسانوں میںانسانوں کی قربانی عام دستور تھا اور بعض قبائل تو قربان کیے گئے انسانوں کا گوشت بھی چٹ کر جاتے تھے۔ قربانی تو آج بھی دی جاتی ہے۔ آج انسان خود انسانی گوشت نہیں کھاتا مگر اس کا بنایا ہوا بارود یہ کام بخوبی کرتا ہے۔ کام بھی ہوگیا نہ ھینگ لگی نہ پھٹکڑی۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 
Top