ساتویں سالگرہ ساتویں سالگرہ کے موقع پر بچوں کے لیے نظمیں

عندلیب

محفلین
لوری کے بول ۔احمد وصی
مدھم ، مدھم ، ہولے، ہولے
امی لوری گاتی ہیں
مجھ کو لینے نیند نگر سے
رنگیں پریاں آتی ہیں

گونج رہے ہیں بول رسیلے
من بھاون تنہائی میں
میرا بچپن کھیل رہا ہے
سپنوں کی انگنائی میں

جب رُک کر دوبارہ امی
لوری کہنے لگتی ہیں
میرے کانوں میں امرت کی
نہریں بہنے لگتی ہیں

لوری کے ہر بول سے لپٹی
ممتا کی آشائیں ہیں
لوری کے ہر بول میں پنہاں
مستقبل کی دعائیں

 

عندلیب

محفلین
ان سے ملیے ۔ قیسی الفاروقی
stock-illustration-15914396-naughty-boy-with-sign.jpg
آپ ارشد ہیں آپ سے ملیے​
شعر پڑھتے ہیں غور سے سنیے​
جب کبھی آپ گنگناتے ہیں​
گھر کے مچھر قریب آتےہیں​
چال کھٹمل سے آپ نے سیکھی​
راگ مینڈک سے آپ نے سیکھی​
ناک ہےبولتی جو سوتے ہیں​
اور بہتی ہے جب یہ روتے ہیں​
صبح اٹھ کر یہ چائے پیتے ہیں​
باپ کے یہ بہت چہیتے ہیں​
کان لمبا ہے ناک چوڑی ہے​
ناک ان کی نہیں پکوڑی ہے​
دل لگا کرکبھی جو روتے ہیں​
مار کھا کر ہی چپ یہ ہوتے ہیں​
کان ان کے ہیں کھینچتے چنو​
ناک ان کی پکڑتے ہیں منو​
ان کی اماں بہت ہی موٹی ہیں​
پھول کر جیسے پاؤ روٹی ہیں​
ان کی دادی جو پان کھاتی ہیں​
پیک سے اپنی گھر سجاتی ہیں​
ان کے ابا بہت ہی لمبے ہیں​
جیسے بجلی کے آپ کھمبے ہیں​
آپ کے ہیں چچا میاں گچھن​
دیکھ کر ان کو ہوتی ہے الجھن​
ان کی پھوپھی جو ایک شمی ہیں​
معاف کیجیے بہت نکمی ہیں​
دوسری پھوپھی جو شوکت ہیں​
ان کے خالد سے ان کو نفرت ہے​
نام مکن کا جب یہ سنتے ہیں​
جی میں اپنے بہت ہی جلتے ہیں​
ایک خالہ ہیں ان کی شہ ناز​
کام کرنے میں کرتی ہیں پرواز​
غوثیہ آپ ہی کی خالہ ہیں​
سارے گھر بھر کی آپ خالہ ہیں​
شاہدہ کو یہ پوچھتے ہیں ہر دم​
دیکھنے کو ترستے ہیں ہر دم​
اور شاعر ہیں آپ کے دادا​
شعر کہنا جنہیں نہیں آتا​
نظم سن کر یہ منہ بناتے ہیں​
اور پڑھنے سے جی چراتے ہیں​
ماسٹر کو یہ خود پڑھاتے ہیں​
داؤں اور پیچ بھی سکھاتے ہیں​
ان سے پڑھنے کی کرئیے گر باتیں​
ٹالنے کی یہ کرتے ہیں گھاتیں​
آپ ارشد ہیں آپ سے ملیے​
اور پھر ان کے باپ سے ملیے​
 

عندلیب

محفلین
خوابوں کی دنیا
فنا پرتاب گڑھی
بستر پہ سو کر​
سپنوں میں کھو کر​
کہتی ہے سلمیٰ​
مسرور ہو کر​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
چاندی کی نہریں​
لیتی ہیں لہریں​
لہروں پہ نظریں​
پل بھر نہ ٹھہریں​
کتنی حسیں ہیں​
خوابوں کی دنیا​
بوڑھا قلندر​
لیٹا ہے اندر​
لڑتے ہیں باہر​
بھالو سے بندر​
کتنی حسیں ہیں​
خوابوں کی دنیا​
ننھا کھلاڑی​
بالکل اناڑی​
جَھک جَھک چلائے​
شیشے کی گاڑی​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
بن میں سپیرے​
ڈالے ہیں ڈیرے​
ڈیروں کے آگے​
سانپوں کے گھیرے​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
اونچا شوالہ​
جیسے ہمالہ​
بیٹھی ہے جس پر​
شیروں کی خالہ​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
کھیتوں کے آلو​
کھاتے ہیں بھالو​
تانے ہیں چادر​
لالہ دیالو​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
پنگھٹ پہ آکر​
گھونگھٹ اٹھا کر​
بھرتی ہیں پانی​
پریاں لجا کر​
کتنی حسیں ہے​
خوابوں کی دنیا​
 

نایاب

لائبریرین
لوری کے بول ۔احمد وصی
مدھم ، مدھم ، ہولے، ہولے​
امی لوری گاتی ہیں​
مجھ کو لینے نیند نگر سے​
رنگیں پریاں آتی ہیں​
گونج رہے ہیں بول رسیلے​
من بھاون تنہائی میں​
میرا بچپن کھیل رہا ہے​
سپنوں کی انگنائی میں​
جب رُک کر دوبارہ امی​
لوری کہنے لگتی ہیں​
میرے کانوں میں امرت کی​
نہریں بہنے لگتی ہیں​
لوری کے ہر بول سے لپٹی​
ممتا کی آشائیں ہیں​
لوری کے ہر بول میں پنہاں​
مستقبل کی دعائیں​
بہت ہی خوب شراکت
 

عندلیب

محفلین
برکھا رت
وکیل انور چاپدانوی
برکھا رت کی شان بڑھائیں​
آؤ بچو ! ناؤ بہائیں​
کالے کالے بادل آئے​
ننھی ننھی بوندیں لائے​
جل تھل جل تھل ہوا ہے آنگن​
دھوم مچاتا آیا ساون​
آؤ ہم بھی دھوم مچائیں​
برکھا رت کی شان بڑھائیں​
کاغذ کی یہ ناؤ ہماری​
کتنی سندر کتنی پیاری​
پانی پر یوں جھوم رہی ہے​
لہروں کا مونہہ چوم رہی ہے​
موج غم سے اسے بچائیں​
برکھا رت کی شان بڑھائیں​
ببلو ، ببلی سارے آؤ​
ڈبلو کو بھی ساتھ میں لاؤ​
کوئی اب نہ رہے اداس​
پیار کا دھن ہو سب کے پاس​
گیت خوشی کے مل کے گائیں​
برکھا رت کی شان بڑھائیں​
 

عندلیب

محفلین
تتلی
رشید جعفری
گلشن کے آنگنوں میں
پھولوں کے دامنوں میں
لہراتی ، مسکراتی
نغمے ہزار گاتی
ہر سمت پھر رہی ہے
پھولوں پہ گِر رہی ہے
سورج کی روشنی میں
مہتاب کی ہنسی میں
برسات کا ہو ڈیرا
ہو رات یا سویرا
بے درد ہوں ہوائیں
بے رحم ہوں فضائیں
موسم ہو چاہے کچھ بھی
سردی ہو یا کہ گرمی
یہ گلشنوں کی رانی
یہ نازشِ جوانی
یہ رنگ و نور والی
کیف و سرور والی
نغمات میں مگن ہے
صد جانِ انجمن ہے
گیتوں کی شاہ زادی
کرتی ہے یہ منادی
کیا شئے ہے زندگی بھی
غم بھی ہے اور خوشی بھی
جامِ شراب پی لو
یا زہر پی کے جی لو
تتلی ہے نام اس کا
پیارا پیام اس کا
عنوانِ زندگی ہے
یہ جانِ زندگی ہے
الفت کی داستاں ہے
گلشن کی پاسباں ہے
 
Top