احمد ندیم قاسمی سائے - احمد ندیم قاسمی

کاشفی

محفلین
سائے
(احمد ندیم قاسمی)

یہ سائے، یہ پھیلے پھیلے، بکھرے بکھرے سائے
یہ سائے، یہ دھندلے دھندلے، نکھرے نکھرے سائے
گویہ سائے آج سمجھتے ہیں ‌، مجھ کو بے گانہ
لیکن ان سے وابستہ ہے ایک حسیں افسانہ
ان کے نیچے میں نے کاٹیں بھادوں کی دوپہریں
جب رقصاں ہوتی تھیں ہر سو، دھوپ کی تپتی لہریں
جب اک البیلی چرواہی لہراتی آتی تھی
رستوں سے کتراتی جب کھیتوں میں چھپ جاتی تھی
چھپتی چھپتی، جھُکتی جھُکتی، میرے پاس آتی تھی،
ہانپتی ہانپتی، ڈرتی ڈرتی، گھاس پہ گر جاتی تھی
اور جب گھبرا کر کہتی تھی۔۔۔"کوئی دیکھ رہا ہے!
سامنے کی پگڈنڈی پر وہ کالا دھبا کیا ہے!"
میں ہنس کر کہتا تھا۔۔۔"پگلی - یہ تو وہم ہے تیرا
کوئی اگر ہو بھی تو یہ رکھا ہے چاقو میرا!"
وہ میرے پہلو میں سمٹ کر چپکے سے کہتی تھی،
یہ وادی تجھ سے پہلے دوزخ سا بنی رہتی تھی!
اب تو ذرے ذرے میں آباد ہے جنت میری،
تجھ سا بانکا گبرو پایا۔۔۔ واہ ری قسمت میری!
شام پڑے تو لگ جاتی ہے دل کو دن کی چنتا
کاش کبھی تو شب کو میرے دل کی دھڑکن گنتا!
دیکھو گرما کے جاتے ہی، مجھ کو چھوڑ نہ جانا،
مجھ سے آنکھیں موڑ نہ لینا، دل کو توڑ نہ جانا
میں تیری ہوں، مرتے دم تک تیری ہوں پیارے
تیرے قدموں میں بیٹھی ہوں، اپنا تن من ہارے !
لیکن گرما کے جاتے ہی میں اس کو چھوڑ آیا،
اس البیلی چرواہی کا نازک دل توڑ آیا،
اب آیا ہوں تو ہر جانب کہرا سا چھایا ہے
اُس کا مفلس باپ اُسے پردیس میں بیچنے آیا ہے
اب یہ ٹھنڈے ٹھنڈے سائے آن میں تپتے جاتے ہیں
ایک پرانے ساتھی پر چنگاریاں برساتے ہیں
دھوپ کو رستہ دے دیتے ہیں دامن کو سرکا کر
یوں ہلتے ہیں۔۔۔۔ناگ اُٹھتے ہیں جیسے پھن لہرا کر
 
Top