سائنسدان اور فنِ شاعری

عرفان سعید

محفلین
سائنسدان اور فنِ شاعری
عرفان سعید​

کافی دنوں سے شعر کے" وزن" کے معاملے میں دل میں ایک کانٹا سا تھا جس کی چُبھن بہت تنگ کر رہی تھی ۔ بارہا سوچا، تخیل کا گھوڑا مختلف میدانوں میں دوڑایا کہ آخر شاعری میں "وزن" کس بلا کا نام ہے۔ سائنس میں تو "وزن" کے متعلق بہت کچھ پڑھ رکھا تھا، مائکرو گرام سے لے کر کلو گرام بلکہ ٹن اور میگا ٹن تک۔ اپنا "وزن" بھی کچھ کم نہیں، ماشاءالله پچھتر کلو کے آس پاس تو ہو گا، جوقیام و طعام میں لاپروائی برتنے پر اسّی کے ہندسے کو چھونے لگتا ہے۔ ایسی ہنگامی صورتِ حال میں ، جسم کی فالتو چربی بیگم کی مسلسل جھڑکیوں کی تپش میں پگھل کر ہمیں فربہی سے بچاتی ہے۔

میں نے دو ماہ قبل شعر گوئی کا شغل شروع کیااور میرے سامعین میں میرے جیسے سائنسدان برابر داد و تحسین کے پھول نچھاور کر کے ہماری آتشِ شوق کو بھڑکا رہے تھے۔ ذہن ہر وقت قافیہ اور ردیف کی جوڑ توڑ میں مصروف رہتا اور میری خوش فہمی کہ بہت اعلیٰ شعر کہے جا رہے ہیں۔لیکن اپنا کلام اپنے ماموں جان – جو کہ اُردو کے پروفیسر ہیں- کو دکھایا تو فرمانے لگے کہ برخوردار، الفاظ کا انتخاب اچھا ہے، تراکیب کی بناوٹ بھی ٹھیک ہے، خیالات بھی عمدہ ہیں، لیکن" وزن" کا شدید مسئلہ ہے۔اُردو ادب کی طالبہ میری خالہ زاد بہن نے بھی ان تاثرات کی تصدیق کی، اور میں سوچتا کہ اگر اتنا ہی مسئلہ ہے تو اپنا دو چار کلو اگر شعروں پر جڑبھی دیا جائے تو بھی زندگی کی ڈور ٹوٹنے والی نہیں، پر ایسا ممکن نہیں تھا۔

پھر سوچا کہ خود ہی کچھ سُراغرسانی کی کوشش کی جائے۔ اس جدوجہد میں جو حیران کُن انکشافات ہوئے، اُن کو ترتیب وار درج کرتا ہوں۔
۱۔ "وزن" کے بارے میں جاننے کے لیے سب سے اوّلین چیز ہے "علمِ عروض"۔ اب ایک سائنسدان بے چارہ تو یہ اصطلاح سُن کر یہی سمجھے گا کہ کسی حکیم صاحب کی قبض کُشا معجون کا نام لیا جا رہا ہے۔
۲۔ ڈرتے ڈرتے علمِ عروض کو ہاتھ لگایا تو معلوم ہوا کہ سب سے پہلے "سہ گانہ" ہوتا ہے۔ اوہو۔۔ یہ تو لگتا ہے کسی نے بہت سہہ کر ہی گایا ہے اور اب یہ بھی واضح تھا کہ اس گیت کو بہت سہم کر گانا پڑے گا۔
۳۔ آگے بڑھیے تو سہ گانہ اور متحرک و ساکن کے باہمی امتزاج سے وہ تیر بہدف دوا تیار ہوتی ہے جو کہ "ارکانِ عشرہ" کی اساس ہیں۔یہ "ارکانِ عشرہ" تو خیر بعد میں دیکھتے ہیں لیکن اس کی ترکیب میں جو بُوٹیاں استعمال ہوتیں ہیں ان کا مزہ نہ اُٹھایا تو مزہ نہیں چکھا جا سکتا۔
۴۔ سب سے پہلے تھا "سببِ خفیف"۔۔والله! ہمیں تو یوں محسوس ہوا کہ یہی ہماری خفت کا سبب ہے۔
۵۔ اس سے آگے قدم بڑھایا تو لگا کہ ڈرون حملوں کی بارش ہو گئی ہے: سببِ ثقیف، وتدِ مجموع، وتدِ مفروق، فاصلہ صُغریٰ، فاصلہ کُبریٰ۔اب تو کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا کہ سائنس اور علمِ عروض میں واقعی فاصلہ کبریٰ ہے، نند اور بھابھی کی طرح۔
۶۔ لیجیئے جناب، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، اب ان سے "ارکانِ عشرہ" بننے جا رہے ہیں۔ہیں تو یہ چھ لیکن "ارکانِ عشرہ" کی تشکیل میں چار استعمال ہوں گے۔ ارے بھئی، اگر چار ہی استعمال ہونے ہیں تو چھ کیوں ہیں؟ اس راز سے ابھی پردہ اُٹھانا باقی ہے۔
۷۔ تو اب ان چار ارکان - سببِ خفیف، وتدِ مجموع، وتدِ مفروق، فاصلہ صُغریٰ- سے ''ارکانِ عشرہ" بننے جارہے ہیں۔۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
۸۔ اب ارکانِ عشرہ کو دیکھیے، مفاعیلن، فاعلاتن، مستفعلن، فاع لاتن، مس تفع لن، مفعولات، فعولن، فاعلن، مفاعلتن، متفاعلن۔۔یاالله! یہ نغمۂ جبرئیل ہے یا صُورِ اسرافیل؟ ان دس ارکان کی حیثیت ہے ترازو کے باٹ کی، جس سے شعر کا وزن ہو گا۔۔ اے ربِّ ذوالجلال! تیر ا صد شکر کے ترازو کی جھنکار تو سُنائی دی، اگر نہ بھی دیتی تو ہم کیا کر لیتے؟
۹۔ان ارکانِ عشرہ کو غور سے دیکھیے اور حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائیے۔۔ابھی تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ ریاضی صرف ہم سائنسدانوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ لیکن ان عروضیوں نے تو وہ وہ کچھ عرض کر ڈالا کہ مُوسیٰ خوارزمی بھی دفن فی الارض ہے۔
۱۰۔ ابھی جوئے شیر لانا باقی ہے۔ ان ارکان کی ترتیب اور تکرار سے بحریں بنتی ہیں۔ اگر ایک رکن کی تکرار ہو تو مفرد بحریں، جو کہ سات ہیں۔ اگر ارکان کا خلط ہو تو مرکب بحریں، جن کی جانکاری ابھی باقی ہے۔ خُدایا! کہیں یہ بحرِ بے کراں تو نہیں؟
۱۱۔ اب سوچا کا جادو کی چھڑی تو ہاتھ لگ ہی گئی ہے، کیوں نا اپنے اشعار کو تولا جائے؟
۱۲۔ اُف الله! یہ کیا؟ بحر تو کیا کوئی بحیرہ بھی نہیں۔چلو دریا ہی سہی، ارے غضب ہو گیا! وہ بھی نہیں، کوئی نہر، ندی یا نالہ؟ ورنہ پرنالہ؟ اگر کچھ نہیں تو ٹُوٹی ہی سہی، ورنہ پھر بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کافی دنوں سے شعر کے" وزن" کے معاملے میں دل میں ایک کانٹا سا تھا جس کی چُبھن بہت تنگ کر رہی تھی ۔ بارہا سوچا، تخیل کا گھوڑا مختلف میدانوں میں دوڑایا کہ آخر شاعری میں "وزن" کس بلا کا نام ہے۔ سائنس میں تو "وزن" کے متعلق بہت کچھ پڑھ رکھا تھا، مائکرو گرام سے لے کر کلو گرام بلکہ ٹن اور میگا ٹن تک۔ اپنا "وزن" بھی کچھ کم نہیں، ماشاءالله پچھتر کلو کے آس پاس تو ہو گا، جوقیام و طعام میں لاپروائی برتنے پر اسّی کے ہندسے کو چھونے لگتا ہے۔ ایسی ہنگامی صورتِ حال میں ، جسم کی فالتو چربی بیگم کی مسلسل جھڑکیوں کی تپش میں پگھل کر ہمیں فربہی سے بچاتی ہے۔

:) :) :)

بہت خوب عرفان صاحب!

اب جب کہ آپ اس میدان میں آگئے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ 'علمِ عروض' کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیلِ نو خالص سائنسی بنیادوں پر کی جائے اور تمام تر 'دقیانوسی' اصطلاحات اور طریقوں کو نئے طرز پر استوار کیا جائے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
:) :) :)

بہت خوب عرفان صاحب!

اب جب کہ آپ اس میدان میں آگئے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ 'علمِ عروض' کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیلِ نو خالص سائنسی بنیادوں پر کی جائے اور تمام تر 'دقیانوسی' اصطلاحات اور طریقوں کو نئے طرز پر استوار کیا جائے۔ :)

ویسے ہماری توقع کے برخلاف ہماری اس درخواست پر پُر مزاح کی ریٹنگ نہیں ملی۔ :)

واللہ ہم اتنے سنجیدہ نہیں تھے کہ جتنے ریٹنگ دینے والوں نے سمجھا۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
جو دل میں سوز رکهے ساز ہی ہوتا ہے زبان اسکی

اردو بہ مشرف پشتو

سوک چے زڑہ کے سوز لری ساز وی د هغو ژبہ

اس سے ایک گیت کے بول یاد آگئے۔

تیرا میرا پیار اک راز ہی رہتا تو اچھا تھا
سوز نہ بنتا یہ ساز ہی رہتا تو اچھا تھا
 
Top