سائبر جرائم: بی بی سی کا استعمال

فریب

محفلین
سائبر جرائم: بی بی سی کا استعمال

صارفین کو بی بی سی کی جعلی ویب سائٹ پر جانے کو کہا جاتا ہے
سکیورٹی اداروں نے انٹرنیٹ صارفین کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسی ’سپیم‘ ای میلوں سے ہوشیار رہیں جن کے ذریعے انہیں بی بی سی کی جعلی ویب سائٹ پر موجود خبروں کے لنک کے ذریعے خطرناک ویب سائٹوں پر جانے پر اکسایا جاتا ہے۔
ان ای میلوں میں صارفین کو بی بی سی کی خبروں کا ابتدائی حصہ فراہم کیا جاتا ہے اور مزید خبر پڑھنے کےلیئے ایک لنک دیا جاتا ہے اور جب بھی صارف اس لنک پر کلک کرتا ہے تو وہ بی بی سی جیسی ایک ایسی جعلی ویب سائٹ پر پہنچ جاتا ہے جو اس کے کمپیوٹر میں ’کی لاگر‘ نامی ایک ایسا سافٹ ویئر انسٹال کر دیتی ہے جس کے ذریعے اس کمپیوٹر کی مدد سے ہونے والے کسی بھی مالی لین دین اور معلومات کا ریکارڈ سائبر مجرموں تک پہنچ جاتا ہے۔

اس کے علاووہ یہ ویب سائٹ غیر محفوظ کمپیوٹروں میں وائرس اور ’ٹروجن ہارس‘ بھی داخل کر دیتی ہے۔ صارفین سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی ای میلیں ڈیلیٹ کر دیں۔

سکیورٹی ادارے ’ویب سنس‘ کا کہنا ہے کہ سائبر مجرم ان پیغامات کی مدد سے دراصل مائیکروسافٹ انٹرنیٹ ایکسپلورر میں حال ہی میں دریافت کی جانے والی ایک خرابی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

مائیکروسافٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور سائبر مجرموں کی گرفتاری اور ان جرائم کے خاتمے کے لیئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس خرابی کا علاج گیارہ اپریل کو جاری ہونے والے اپ ڈیٹ میں فراہم کر دے گی۔ تاہم اگر اس مسئلے نے سنگین رخ اختیار کیا تو یہ اپ ڈیٹ جلد بھی آ سکتا ہے۔ فی الحال دو کمپنیاں ’آئی ڈیجیٹل سکیورٹی‘اور’ڈیٹرمنا‘ اس مسئلے کا حل صارفین کے لیئے پیش کر چکی ہیں۔

ویب سننس کے تکنیکی سربراہ مارک مرتاغ کا کہنا ہے کہ ایسی جعلسازیوں کے لیئے بی بی سی جیسی عالمی برانڈ کمپنیوں کے نام کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ’گزشتہ برس کٹرینا طوفان کے دنوں میں ایسی ہی ای میلیں عالمی ریڈ ّ کراس کے نام سے بھیجی گئیں جن میں لوگوں سے چندے کی اپیل کی گئی تھی۔ اور اب ہمیں خدشہ ہے کہ فٹبال ورلڈ کپ کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیا جائے گا‘۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب بی بی سی کا نام ان جعلساز ویب سائٹوں نے استعمال کیا ہے۔ بی بی سی س نیوز ویب سائٹ کے مدیر سٹیو ہرمن کا کہنا ہے کہ’لوگ پہلے بھی بی بی سی کے جعلی ویب صفحات بناتے رہے ہیں لیکن انہیں لوگوں کی مالی معلومات تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا جانا ہمارے لیئے باعثِ تشویش ہے‘۔
 
Top