سائبان ہاتھوں کا - پرویز اختر

الف عین

لائبریرین
غزلیات

مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مر ا جُرم صرف یہی تو تھا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لیے ہوئے کئی لوگ تھے
مجھے اپنا آپ عجب لگا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے
نہیں چاند تارے مِلے تو کیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
نہیں دم گھٹا مرا حبس میں ،مجھے روشنی کی طلب جو تھی
میں ہوا کو کیسے پکارتا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مرے اہلِ خانہ کو کیا خبر کسی آفتاب کی آس ہو
اِسی ڈر سے میں نہیں گھر گیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
 

الف عین

لائبریرین
رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر
اگلے دن کچھ بھی نہ تھا شہر کی دیواروں پر
وہ بھی دور آئے کہ ظالم کو عدالت سے مِلے
لوگ لکھیںجو سزا شہر کی دیواروں پر
خلقتِ شہر ترے بارے میں کیا کہتی ہے
اِک نظر ڈال ذرا شہرکی دیواروں پر
جس کو اخبار نہیں مصلحتاً چھاپ سکے
جا بجا ہم نے پڑھا شہر کی دیواروں پر
لوگ کیوں نقل مکانی پہ بضد ہیں پرویزؔ
جانے تحریر ہے کیا شہر کی دیواروں پر
 

الف عین

لائبریرین
تحفّظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے
نہ جانے اپنے گھر جانے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے
اگر دیکھوں تو کل تک تھا جہاں اب بھی وہیں ہوں
مگر سوچوں تو طے ہوتا سفر کیوں لگ رہا ہے
وہ باہر قفل ڈالے گھر کے اندر بند کیوں ہے
اُسے باہر نکل آنے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہی اس وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد
وہی اِس سانحے سے بے خبر کیوں لگ رہا ہے
مجھے معلوم ہے یہ خون کے چھینٹے ہیں پرویزؔ
مگر لکھا ہوا کچھ خاک پر کیوں لگ رہا ہے
 
Top