زہر یا قند۔۔۔

-زہر یا قند-----
بادشاہ کو مار کر اس کے تخت پر قبضہ کرنے کے لیے اس کے وزرا یا خلفاء اسے آہستہ آہستہ میٹھی چیز میں زہر ملا کردیتے رہتے، جس سے بادشاہ بستر سے جا لگتا اور رفتہ رفتہ مر جاتا. مذموم مقاصد رکھنے والے اپنی مراد کو پہنچتے.
یہی حال اس مسلمان ملت کا ہے. اس ملت کی اصل روح اور بنیاد اسلام کے اندر پنہاں ہے. آہستہ آہستہ آزادی، ترقی پسندی، روشن فکری کی آڑ میں اس ملتِ اسلامیہ کو سیکولرازم اور لبرلزم کا زہر کھلایا جارہا ہے. اگر یہی حال رہا تو بہت جلد اسلام مسجد میں اس طرح محدود ہوجائے گا جس طرح عیسائیت کلیساء کے اندر.
اسلام کو معاشرے سے بے دخل کرکے زندگی کا ایک علیحدہ شعبہ بنانے میں جہاں ان لبرل حکمرانوں اور صحافیوں کا ہاتھ ہے وہاں نادان علماء کو بھی استعمال کیا گیا ہے. جو اسلام کے نام پر جہالت کا پرچار کرتے ہیں اور ان کی مذمت میں لبرلز اپنا دھندا چلاتے ہیں. لبڑل اور نام نہاد ملڑ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں.
آج اس بابصیرت ملت کی ضرورت ہے جس کا ہر فرد یہ جملہ کہنے کی جرأت و ہمت رکھتا ہو،
"میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند"
میرے مسلمان بہن بھائیو......! جن لوگوں کو اسلام کو ایک قدر value حجاب سے اس قدر نفرت ہے، ہم ان کا سارے کا سارا نظام اپنائے ہوئے ہیں. اپنے مسلمان ملک کے وزیرِ اعظم کے جملوں پر غور کریں، دراصل یہ بہترین آواز و خطابت کے زریعہ کانوں میں میٹھا زہر گھول رہے ہیں. اور یہ سب آوازیں اسلام کو خیرباد کہنے کے لیے بلند ہوئی ہیں.
 
Top