زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں (عرفان ستار)

نیرنگ خیال

لائبریرین
زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں

یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں

لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں

اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں

تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں

اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں

عرفان ستار​
 
Top