ہر گل کی جبیں پر شکن ہے
کشمیر لٹا ہوا چمن ہے
پھولوں نے چھپا رکھا ہے ورنہ
زخموں سے اٹا بدن ہے
ہونٹوں پہ رکے ہوئے ہیں شعلے
آنکھوں پہ جمی ہوئی جلن ہے
ہر فرد ہے غم کا اک صحیفہ
ہر چہرہ حکایت محن ہے
پھیلا ہے ہاتھ برہمن کا
اس چاند کا مستقل گہن ہے
جلتے ہوئے گھر ، چھنے ہوئے کھیت
ہر شخص وطن میں بے وطن ہے
سنتے ہیں سمندروں کے اس پار
اقوام کی ایک انجمن ہے
آج اس کے اصول کے مطابق
ظالم ہے وہی ، جو خستہ تن ہے
آج اس کی روایتوں کی رو سے
رہبر ہے وہی ، جو راہزن ہے
آج اس کی بلند مسندوں پر
ہر چور کے ہاتھ میں کفن ہے
حق بات تو خیر، جرم تھا ہی
حق مانگنا بھی دوانہ پن ہے
سچ کہتی ہیں سب غریب قومیں
یہ بزم بھی ، بزم اہرمن ہے
تاریخ الٹ رہی ہے اوراق پر
کشمیر کی برف شعلہ زن ہے
کشمیر کی مفلسی میں لیکن
اب کیسا بلا کا بانکپن ہے
زخموں سے اٹے ہوئے بدن پر
یزداں کا جلال ضوفگن ہے
ہیں برق فشاں سلے ہوئے لب
کاٹا ہوا ہاتھ ، تیغ زن ہے
ہر سمت پہاڑ کٹ رہے ہیں
ہر فرد شبیہ کوہ کن ہے
ہر دل میں گڑا ہوا ہے تیشہ
لیکن یہی عشق کا چلن ہے
جو موت ہو زندگی کی خاطر
وہ زندگی کا کمالِ فن ہے
از احمد ندیم قاسمی