زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!

نور وجدان

لائبریرین

زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!

مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟


نہیں ! پھر کیسے ؟


کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !


خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...


فرق سے یاد آیا...

ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!


سورج کی تمثیل نہیں کیا؟
ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!

وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..



روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !


دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟


ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....


کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !


درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟


سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!


درد --------محبوب ---- روشنی


کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..



مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..



میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟


سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر
 
آخری تدوین:
ہجر، فراق، اور شوق کے درد سے پیار اور اس کو زادۂ راہ بنانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر تقسیم کے درد کو محبوب کا پرتو خیال کرنا ہماری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔ میرا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ آسودگی میں خدا کا پیار ٹراسینڈینٹ اور تنگی میں اس کا پیار ایکسٹرنل اور بعد والا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہجر، فراق، اور شوق کے درد سے پیار اور اس کو زادۂ راہ بنانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر تقسیم کے درد کو محبوب کا پرتو خیال کرنا ہماری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔ میرا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ آسودگی میں خدا کا پیار ٹراسینڈینٹ اور تنگی میں اس کا پیار ایکسٹرنل اور بعد والا ہے۔

مجھے لگتا ہے آپ تحریر کو سمجھ نہیں آئی ..یا پھر مجھے سمجھ نہیں آئی اپ کی تقسیم سے کیا مراد ہے
آپ کی ایکسٹرنل سے کیا مراد ہے؟
 
میرا خیال ہے کہ تقسیم سے آپ کی مراد دنیاوی وسائل کی تقسیم سے ہے اور راضی برضا ہونے سے مراد تنگ دستی میں شکر سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ مفلسی میں محبوب حقیقی سے پیدا ہونے والے تعلق میں دوئی پائی جاتی ہے۔ ایکسٹرنل سے میری یہی مراد ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ تقسیم سے آپ کی مراد دنیاوی وسائل کی تقسیم سے ہے اور راضی برضا ہونے سے مراد تنگ دستی میں شکر سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ مفلسی میں محبوب حقیقی سے پیدا ہونے والے تعلق میں دوئی پائی جاتی ہے۔ ایکسٹرنل سے میری یہی مراد ہے۔

خارجی تقسیم ہو یا داخلی، دکھ کا باعث ہوتی. اضداد کی سمجھ نہیں آتی، ازل کی ہجرت کی، روح کی صدائیں، چیخیں بے معنی ہوتی ہیں جب تک خارجی تقسیم اثر انداز نہ ہو .ہجرت، دکھ، شوق سب اسی کی کارستانیاں ہیں اور یہی خارجی اسطرح داخلی تقسیم کردے .. بیرونی دنیا باطنی دنیا کو پرتو بن جاتی ہے. تو دوئی کہاں رہتی ہے کہ رسائی اصل سے ہوجاتی ہے! میرا تو خیال تجربہ صرف ذاتی رسائی ہے جبکہ تکثیریت کا جام کل تک رسائی ہے
 
Top