زمیں پر یہ جو گھر رکھا گیا ہے

میاں وقاص

محفلین
زمیں پر یہ جو گھر رکھا گیا ہے
"ہمارے نام پر رکھا گیا ہے"

ارے تم دایئں جانب دیکھتے ہو
دل_ناداں ادھر رکھا گیا ہے

تقاضہ وہ مری اجرت کا شاید
پس_دست_ہنر رکھا گیا ہے

مرے احوال تھے کنداں کہیں پر
مجھے بھی بے خبر رکھا گیا ہے

فرشتے سر جھکا کر دیکھتے ہیں
زمیں پر کیوں یہ سر رکھا گیا ہے

مری کٹیا کا یہ تاریک آنگن
پس_نور_قمر رکھا گیا ہے

سنا ہے، صبر کا، چکھا نہیں ہے
بہت میٹھا ثمر رکھا گیا ہے

ہمارے دیس کا پیسہ اٹھا کر
نجانے کس نگر رکھا گیا ہے

کبھی پیروں سے چھینی ہے زمیں، تو
کبھی شانوں پہ گھررکھا گیا ہے

پرندہ ڈار سے پیچھے ہے، وہ جو
قفس میں رات بھر رکھا گیا ہے

کبھی منزل تلک بھی پہنچنا ہے
یا، پیروں میں سفر رکھا گیا ہے؟

بھڑک اٹھا ہے اب سارا گلستاں
گلوں میں کیوں شرر رکھا گیا ہے

میں مٹی کا بنا ہوں، اس لیے تو
مجھے یوں آگ پر رکھا گیا ہے

ارے میں نام کا شاہین ہوں اب
مری مٹھی میں پررکھا گیا ہے

حافظ اقبال شاہین
 
Top