ذاتی کتب خانہ زمیں ظالم ہے از محمد خلیل الرحمٰن

زمین ظالم ہے۔
محمد خلیل الرحمٰن​
اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ کا نام سنتے ہی پروین رحمان کا نام ہمارے ذہن میں در آیا اور جب ہم ڈھونڈ ڈھانڈ کر اُن کے دفتر پہنچے تو وارفتگیٗ شوق کا عجب عالم تھا ۔ قدم رکھنا کہیں چاہتے تھے اور رکھتے کہیں اور تھے۔
چھوٹے سے ہال کے سامنے جاکر رکے تو پیچھے سے ایک باوقار سی خاتون نمودار ہوئیں۔

’’آپ اردو کے لیے تشریف لائے ہیں؟‘‘

ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگیں۔

’’اندر ہی تشریف لے جائیے یا آفس میں چلئے۔‘‘

ہم ابھی اپنی سانسیں درست کرہی رہے تھے لہٰذا ہال کے اندر جانے ہی میں غنیمت جانی۔ فرایضِ منصبی سے فارغ ہوئے سوچا کہ ان خاتون سے ایک ملاقات اور کرلی جائے۔ ان کے آفس پہنچے تو دیکھا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک بیضوی میز کے گرد کرسیاں رکھی ہیں جن میں سے ایک پر وہ تشریف فرماہیں۔ ہمیں دیکھا تو کمال محبت سے ہمیں اپنے پاس بٹھا لیا ۔ سامنے دیوار پر پروین رحمان کی تصویر مسکرا رہی تھی۔

دورانِ گفتگو ہم نے بتایا کہ جب سے ہمیں علم ہوا ہے کہ اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ میں مدعو ہیں تو مارے خوشی کے ہمارے دل کا عجب عالم ہے۔ پروین رحمان شہید کی ہمارے دل میں بہت عزت ہے کہ وہ بہت بڑی آدمی تھیں۔

خوش ہو کر کہا۔

’’میری بہن تھی وہ۔‘‘

ایک خوشگوار حیرت نے ہمیں گھیر لیا۔تو یہ تھیں محترمہ عقیلہ اسمٰعیل۔ اگلی ملاقات تک ہم گوگل کی مدد سے ان سے متعلق مزید معلومات بہم پہنچا چکے تھے ۔
عقیلہ اسماعیل پیشے کے لحاظ سے انجینیر ہیں۔ ایک عرصے تک این اِی ڈی یونیورسٹی کراچی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر رہیں۔ لکھتی تو بہت سے موضوعات پر رہیں مگر ادب سے خاص طور سے دلچسپی رکھی اور اسی شوق کی تکمیل کے لیے فہمیدہ ریاض کے تین ناولوں اور اسد محمد خان کے افسانوں کا ترجمہ کر ڈالا۔
اور اب حال ہی میں ان کا طبع زاد انگریزی ناول Martyrs and Marygold شائع ہوا ہے۔ اسی ناول کی تعارفی تقریبات میں شرکت کے لیےوہ حال ہی میں واشنگٹن تشریف لائیں۔


وائس آف امریکہ کے ادبی مجلّے ’صدا رنگ‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عقیلہ اسماعیل نے بتایا کہ 2008ء سے انہوں نے اپنی ساری توجہ اس ناول پر مرکوز کی، کیوں کہ، بقول اُن کے، یہ ایک کُل وقتی کام تھا جب پاکستان کا مشرقی حصّہ پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا تو اُس وقت وہ وہیں تھیں۔ اُس زمانے کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ کبھی اُن یادوں کو خود نوشت انداز میں لکھنے کا سوچا اور کبھی کسی اور اسلوب میں ، مگر تان ناول پر ٹوٹی۔
عقیلہ اسماعیل نے ہمیں بتایا کہ ناول کا آغاز فروری 1972ء سے ہوتا ہے اور پھر ماضی کی طرف مراجعت ، 1947 ءکی ہجرت، اور اس دوران پاکستان کے اُس سابقہ حصّے کی زندگی کے عکس در عکس، ظلم و جبر کا نشانہ وہ بھی بنے جو مقامی تھے اور وہ بھی جو ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ سبھی مظلوم ان کے ناول کے کردار ہیں اور کہانی انہیں کے گرد گھومتی ہے۔
ہمارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے یہ واقعات ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں لکھا، مگر ان کا ایک مخصوص نقطہٴ نظر تھا، جب کہ ان کا موضوع عام انسان اور معاشرہ تھا، جس کی ان گنت جہتیں اور پرتیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کا یہ ناول ان کی ذاتی یادوں کی باز یافت ہے۔ تاریخی حقائق اور اسباب کے بکیھڑوں میں الجھے بغیر جو گزری ہے اسے بیان کیا جائے۔ سو اس طرح انہوں نے اپنا یہ پہلا ناول لکھا ۔ موجودہ ناول کو خود ہی اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ، مگر اردو میں اپنا لکھا من کو نہ بھایا، سو اب اس کا اردو ترجمہ کسی اور سے کروا رہی ہیں۔
اپنے کیے ہوئے تراجم کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے، کیوں کہ اردو افسانے یا ناول کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیئے کہ اس کی اصل روح برقرار رہے اور اردو افسانہ انگریزی شارٹ سٹوری نہ بن جائے۔

خود انگریزی لکھتے ہوئے سہولت محسوس کرتی ہیں ، مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں زبانوں میں سوچتی ہیں۔ بس جیسے ہم سب انگریزی اردو ملا کر بولتے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کا انسانی المیہ: تصویر کا دوسرا رُخ


انہوں نے اپنی بیٹی سحر سے بھی ملاقات کروائی ۔ عقیلہ کے ناول Of Martyrs and Marigold کا تذکرہ نکلا تو ہم نے کہا

’’گو ہم نے پڑھا نہیں ہے لیکن واقف ضرور ہیں۔ بلکہ یہ تو آپ کی آپ بیتی ہی ہے شاید؟‘‘

خوش ہوکر کہنے لگیں ’’جی ہاں اور اس میں پروین بھی موجود ہے۔‘‘

سحر اسی دوران اپنی کرسی سے اٹھیں اور شیلف سے جاکر ناول کا اردو ترجمہ نکال لائیں اور ہمیں ھدیا کردیا۔ کہانی پھولوں اور شہیدوں کی کا ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے اور اسے آج کی کتابیں ہی کے زیرِ اہتمام چھاپا گیا ہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

ہجرت اور سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر ہی میں لکھے گئے افسانوں کے مجموعے زمین ظالم ہے ( جسے اظہار سنز لاہور نے چھاپا اور ہم نے سید محمد علی انجم رضوی سے بذاتِ خود خریدا ) میں انتظار حسین کا افسانہ شہرِ افسوس بھی شامل کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
یہ سُن کر میری ہنسی جاتی رہی۔میں نے افسوس کیا اور کہا۔ اے بزرگ کیا تو نے دیکھا کہ جو لوگ اپنی زمین سے بچھڑ جاتے ہیں ، پھر کوئی زمیں انہیں قبول نہیں کرتی۔
میں نے یہ دیکھا اور جانا کہ ہر زمیں ظالم ہے۔
جو زمیں جنم دیتی ہے وہ بھی؟
ہاں جو زمیں جنم دیتی ہے وہ بھی، اور جو زمیں دارالاماں بنتی ہے وہ بھی، ۔
میں نے یہ جانا کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے اور نروان کسی صورت نہیں ہے اور ہر زمین ظالم ہے۔( انتظار حسین از شہرِ افسوس)

اپنی مٹی سے محبت اور ہجرت کے دکھ کو مرکزی خیال بناتے ہوئے ہم نے اپنی کتابوں پر نظر دوڑائی تو کئی ایک کتابوں پر نظر گئی۔ تقسیمِ برصغیر اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والی ہجرت اور افسوس ناک فسادات کو برصغیر پاک و ہند کے افسانہ نگاروں کے ایک مستقل موضوع کی شکل دی ہے۔ ممتاز شیریں اور صمد شاہین کے اپنے رسالے نیادور کا ایک فسادات نمبر بھی نکالا تھا جو ہمارے ہاتھ نہ لگ سکا البتہ اسی موضوع پر ممتاز شیریں کا ترتیب دیا ہوا افسانوں کا مجموعہ ظلمتِ نیم روز جسے ۱۹۹۰ میں آصف فرخی نے دوبارہ ترتیب دے کر نفیس اکیڈمی سے چھپوایا، ہمارےاس مختصر ڈھیر میں عمدہ ترین کتاب کی حیثیت سے ضرور موجود ہے۔ کتاب میں افسانوں کے علاوہ ممتاز شیریں،، محمد حسن عسکری اور انتظار حسین کے فکر انگیز مضامین بھی جمع کردئیے گئے ہیں۔

ادھر انتظار حسین کے افسانوں کی تو مرکزی تھیم ہی اپنی زمین سے بچھڑنے کا دکھ ہے۔

ہم نے انٹر کا امتحان دے لیا تھا اور فارغ تھے۔ اپنے نانا ماموں ڈاکٹر صمد شاہین کے پاس گئے تو انہوں نے پروفیسر احمد علی کا ناول Twilight in Delhi پکڑا دیا جو ہم جوں توں کرکے ختم کیا لیکن آج تک اُس ناول کے پہلے مطالعے کی یاد ہمارے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔ بعد میں اوکسفرڈ پاکستان نے یہ ناول انگریزی ہی میں چھاپا تو ہم نے فوراً خرید لیا۔ اس کا اردو ترجمہ ’’ دلی کی شام‘‘ ( سنا ہے کہ احمد علی ہی نے اس کا ترجمہ کیا تھا لیکن یہ شاید اُن کی زوجہ محترمہ کے نام سے چھپا) جب بھی ہمیں نظر آئے ہم ایک لمحے کی دیر لگائے بغیر اسے خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن آج تک ایسا ہوا تو نہیں ۔ احمد علی کا ایک افسانہ ’’مہاوٹوں کی ایک رات ‘‘ بھی ہمیں افسانوں کے ایک مجموعے ’’اردو افسانہ اور افسانہ نگار‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتحپوری اردو اکیڈمی سندھ طبع جنوری ۱۹۸۲ میں مل گیا۔اسی طرح ایک اور افسانہ ’’مارچ کی ایک رات‘‘ ہمیں ایک اور کتاب ’’ترقی پسند افسانے ( ایک نمائیندہ انتخاب)‘‘ میں ملا جسے ڈاکٹر حنیف فوق اور نثار حسین نے ترتیب دیا اور الحمرا نے اگست ۲۰۰۳ میں چھاپا۔ البتہ انگارے مجموعہ جو احمد علی نے مرتب کیا تھا کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملا۔

پروفیسر صاحب سے ایک ملاقات بھی ہمارے ذہن میں تازہ ہے۔ ڈاکٹر صمد شاہین ہی ہمیں اُن کے گھر لے گئے تھے۔ وہاں بیٹھ کر ہم ان دونوں عظیم لوگوں کی گفتگو سنا کیے تھے۔ احمد علی نے قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا جو ہماری نظروں سے نہیں گزرا۔
 
آخری تدوین:
کیسے کیسے پیارے لوگ موجود ہیں محفل پر۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور ہمیں کسبِ فیض کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ! نام بھی بتا دیتے اُن پیارے پیارے لوگوں کے تاکہ ہم جیسے کندہ گانِ ناتراش بھی اُن سے کسبِ فیض کی جراٗت کرسکتے۔
 

نمرہ

محفلین
دلی کی شام اچھا ناول ہے۔ میں تو اسے پڑھتے ہوئے سوچتی رہتی تھی کہ کس شعر کا حوالہ دیا جا رہا ہے ابھی۔
انگارے نامی مجموعہ ریختہ کی سائٹ پر موجود ہے۔
 
دلی کی شام اچھا ناول ہے۔ میں تو اسے پڑھتے ہوئے سوچتی رہتی تھی کہ کس شعر کا حوالہ دیا جا رہا ہے ابھی۔
انگارے نامی مجموعہ ریختہ کی سائٹ پر موجود ہے۔
آہا! کیا یاد دلادیا

لیجیے اسی بات پر ٹوائی لائٹ اِن ڈیلہی سے احمد علی کے ترجمہ کیے ہوئے کچھ اشعار اور ان کا اصل متن

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں ، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے ، میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
I’m the light of no one’s eyes,
The rest of no one’s heart am I.
That which can be of use to none
__A handful of dust am I.



کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیا کے
Why do you ask my native place,
O dwellers of the East,
Making mock of me for the poor plight I am in?
Delhi, which was once the jewel of the world,
Where dwelt only the loved ones of fate,
Which has now been ruined by the hand of Time,
I’m a resident of that storm- tossed place….



نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ، ہم بیزار بیٹھے ہیں
Betake your way, O breeze of the spring,
Frolic not with me;
You are in a playful mood,
But I in none of ecstacy.



کیا مجھ کو داغوں نے سروِ چراغاں
کبھو تو نے آکر تماشا نہ دیکھا
The wounds of love had made me
A lighted tree aglow in the night;
But even then – ah, pity me
You did not come to see the sight



زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
is It a storm, or is it life?
We die of living and the strife
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دلی کی شام اچھا ناول ہے۔ میں تو اسے پڑھتے ہوئے سوچتی رہتی تھی کہ کس شعر کا حوالہ دیا جا رہا ہے ابھی۔
انگارے نامی مجموعہ ریختہ کی سائٹ پر موجود ہے۔
ریختہ پر موجود افسانوں کا مجموعہ انگارے دراصل سجاد ظہیر ، ا حمد علی اور رشید جہاں وغیرہم کا مرتب کردہ ہے ۔ اردو کے اولین باغیانہ ادب میں اس مجموعے کا بڑا مقام ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خلیل بھائی بہت اچھا طرز اور اسلوب نکالا ہے آپ نے کتابوں پر تبصرے کا! کتاب کا پس منظر بھی بتادیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موضوع سے متعلقہ تحریروں کے حوالے یعنی کراس ریفرنس دے کر ہمارے علم مین اضافہ بھی کردیتے ہیں ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! انتظار حسین اور عبداللہ حسین میرے پسندیدہ لکھاریوں مین سے ہیں ۔ انتظار حسین کا ناول بستی اپنے موضوع پر ایک عجیب ہی چیز ہے!!
 

نمرہ

محفلین
ریختہ پر موجود افسانوں کا مجموعہ انگارے دراصل سجاد ظہیر ، ا حمد علی اور راشد جہاں وغیرہم کا مرتب کردہ ہے ۔ اردو کے اولین باغیانہ ادب میں اس مجموعے کا بڑا مقام ہے ۔
ویسے بغاوت سے تمام تر ہمدردی کے باوجود اس کتاب کا ادبی مقام مجھے کوئی زیادہ اونچا نہیں دکھائی دیتا، رشید جہاں کے ایک آدھ افسانے کے علاوہ۔ شاید اس کی بنیادی وجہ شہرت بغاوت ہی ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
ویسے بغاوت سے تمام تر ہمدردی کے باوجود اس کتاب کا ادبی مقام مجھے کوئی زیادہ اونچا نہیں دکھائی دیتا، رشید جہاں کے ایک آدھ افسانے کے علاوہ۔ شاید اس کی بنیادی وجہ شہرت بغاوت ہی ہے۔

47.jpg

احمد علی کی پہلی اور آخری کامیابی

محمد سلیم الرحمن۔۔۔۔۔
احمد علی کی ادبی زندگی کا آغاز بڑے ڈرامائی انداز میں ہوا۔ رشید جہاں، سجاد ظہیر اور محمود الظفر سے مل کر انہوں نے 1932ء میں ’’انگارے‘‘ کے نام سے افسانوں کا مجموعہ شائع کیا۔ کتاب کے سامنے آتے ہی ایسا لگا جیسے کسی نے اردو ادب پر ایٹم بم گرا دیا ہو۔ جس انداز کے افسانے مجموعے میں شامل تھے ان کی پذیرائی کے لیے اردو کے روایت پسند، تقلیدی اور لکیر کے فقیر ادیب، نقاد اور قاری نہ ذہنی طور پر تیار تھے نہ نفسیاتی طور پر۔ انہیں محسوس ہوا جیسے کوئی نامحرم ان کے زنان خانے میں آ دھمکا ہے۔ ایک ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ افسانہ نویسوں پر لعنت بھیجی جانے لگی۔ کتاب پر پابندی لگا دی گئی۔ آج ان افسانوں کو پڑھیں تو اردو ادیبوں، نقادوں اور پڑھنے والوں کے ردعمل پر ہنسی آتی ہے۔ یہ افسانے نہ صرف بے ضرر دکھائی دیتے ہیں بلکہ فنی اعتبار سے بھی ان سے متاثر ہونا مشکل ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جمود کے شکار معاشرے کو ہر طرزِ نو سے خطرے کی بو آتی ہے۔
- See more at: احمد علی کی پہلی اور آخری کامیابی | ہم شہری
 
آخری تدوین:
Top