حیدرآبادی

محفلین
نظم : زمین والوں کے نام !!
( شاعر : پروفیسر غیاث متین ،
سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد دکن ۔
بحوالہ شعری مجموعہ : دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ )


پیش لفظ :
ایک (نام نہاد) سیکولر دیس میں رہ کر ہم نے ’غیروں‘ کے ہاتھوں بہت دکھ جھیلے ہیں۔ ہم نے وہ سیاہ دن بھی دیکھا جب ہماری عبادتگاہ کی گنبدوں پر چڑھ کر غیروں نے ہتھوڑے برسائے اور وہ مسلسل خون آلود دن بھی ، جنہوں نے ہماری آنکھوں میں اُس وقت خون کی ندیاں بہائیں جب ایک درندے کے حکم پر ایک پورے شہر سے ہماری نسل کا صفایا کیا گیا۔
مگر ۔۔۔۔۔ گذشتہ چند دن سے جب ہم اپنے ہمخیال ، اپنے ہم زباں ، اپنے ہم مشرب ، پڑوس کی جانب نظریں اٹھا رہے ہیں تو ۔۔۔۔ تو ہماری آنکھوں میں نمکین بادل سے امڈے آ رہے ہیں ، زبان گنگ ، قلم ہے خاموش کہ ۔۔۔
تمام جسم کو اب آنکھ بن کے پینا ہے
یہ تلخ گھونٹ کہاں تک تنہا آنکھ پئے

کس کس کو الزام دیجئے کہ مرنے والا اور مرنے والی بھی ہمارے بھائی بہن اور مارنے والا بھی ہمارا عم زاد !!
کس کس کو ہم دلاسا دیں کہ ذہن ماؤف ہیں ، دل لرزیدہ ، اعصاب شکستہ ، ضمیر کہ گم صم ، قلم کہ ٹوٹ سا گیا ہے ، وقت کہ ٹھٹھر کر رہ گیا ہے !!
خموشیوں نے سماعت کو کر دیا بیکار
سکوت چیخ رہا ہو تو کیا سنائی دے


برسوں پہلے ، ہمارے حیدرآباد کے ایک معروف و مقبول شاعرِ محترم نے ایک بہت ہی دلخراش نظم تحریر کی تھی ۔ جس ماحول کی وہ آواز تھی ، اس میں ذرا سی تبدیلی جب ہم نے کی ۔۔۔۔۔ تو وہ آواز ، ہمارے ہی پڑوس کی غمگین آواز بن گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہَوا ، خیمہ ، چَراغ ، شمال کی ہَوا ، شہرِ دل ، خواب ، کتاب اور زمین ۔۔۔ یہ استعارے ، اگر آپ شعری ذوق رکھتے ہوں تو ، خوب سمجھتے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ لیجئے دل تھام کے ملاحظہ کیجئے اور پھر ہمارے اُٹھے ہاتھ سے لگا کے اپنے ہاتھ ، دعا کیجئے کہ آپ اپنی ’زمین‘ کو بچا سکیں تو بچا لیں کہ ہم بھی آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں !!
اے ذوالجلال! حُرمتِ ارضی کی خیر ہو
پھیلا ہے کیوں فضاؤں میں بارود کا دھواں
کچھ معرکے ہیں جاری تری کائینات میں
زخمی کبوتروں کے پروں میں ابھی ہے جاں!!


زمین والوں کے نام !!

ہَوا
کچھ ایسی چلی
کہ خیمے اُکھڑ گئے ہیں !
غبار ، ایسا غبار اُٹھا
کہ دھول آنکھوں میں جَم گئی ہے
چراغ بھڑکیں ،
تو اس میں ان کا قصور کیا ہے ؟
شمال کی
یہ ہَوا
کچھ ایسی شریر و گستاخ ہے
جو بڑھ کر
بھڑکنا ان کو سکھا رہی ہے
جلا رہی ہے
بجھا رہی ہے
ہَوا ، کچھ ایسی چلی کہ خیمے اکھڑ گئے ہیں !

چراغ ، دونوں طرف کے
اتنے بجھے کہ منظر بھی رو رہا ہے !
سبز (فوجی) لبادوں ، سبز (فوجی) نقابوں کا راج ہر سُو
کہاں کے رشتے
کہاں کے ناتے
کہاں کے رستے
کہاں کی منزل
چہار سمتوں میں آگ ایسی لگی ہوئی ہے ۔۔۔
بجھانا چاہیں تو بڑھ رہی ہے !
بدن دریدہ ، کفن دریدہ ، پڑی ہیں لاشیں
سروں سے آنچل
بدن سے نقاب
اُتر چکے ہیں
جو خواب دیکھے تھے ہم نے
وہ خواب ۔۔۔
مر چکے ہیں !
ہَوا کچھ ایسی چلی
کہ خیمے اُکھڑ گئے ہیں !

ہماری درسگاہ میں
تمام چہرے تھے روشنی کے
تمام چہروں سے روشنی تھی
وہ دوسرے تھے !
یہ سنا تھا میں نے ،
مگر مَیں جن پر
دعائیں پڑھ پڑھ کے پھونکتا تھا
وہ میرا گھر پھونکنے کو آئے !
بس ایک دیوار بیچ میں تھی ۔۔۔
وہی ہمراہی بھی آئے
مشین گن بدست آئے !
جوتوں سمیت آئے !
یہ کیسی آندھی چلی کہ چہرے بگڑ گئے ہیں
ہَوا کچھ ایسی چلی کہ خیمے اُکھڑ گئے ہیں !

نہ کوئی اخبار ہے جو کیچڑ میں
پھول جیسا کھِلا ہوا ہے
نہ ’جیو‘ میں ، خبر کی خوشبو
نہ ’یُو ٹیوب‘ میں ہے وہ منظر
جو مجھ کو
سورج دِکھا رہا ہے !

عجیب موسم ہے
شہرِ دل میں !
نہ آنکھ اپنی
نہ کان اپنے
نہ پاؤں اپنے

پتا نہیں ہم ۔۔۔
یہ کس کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں
یہ کس کے کانوں سے سن رہے ہیں
یہ کس کے پَیروں سے چل رہے ہیں
عجیب موسم ہے
شہرِ دل میں !

زمین والے ، ۔۔۔۔۔
تو آج دیکھو
خلا میں گردش لگا رہے ہیں
سمندروں پر
مکان اپنے بنا رہے ہیں !

اِسی زمیں پر
مصلح ، مبلغ ، رسول اور نبی بھی آئے
تمام سمتوں کے واسطے
اک پیام لائے ۔۔۔۔۔
مگر ، میں اتنا ہی جانتا ہوں
زمین پر ظلم ہو رہا ہے
زمین والے ہی کر رہے ہیں

وہاں فرشتوں نے سچ کہا تھا ،
مگر خدا جانتا تھا سب کچھ
( وہ آج بھی جانتا ہے سب کچھ )
وہ ، آسماں سے
اُتر کے ۔۔۔۔۔
اپنی زمیں پر آئے گا ،
بھول جاؤ ! ۔۔۔۔
وہ اپنے ہاتھوں سے ،
اس زمیں کو
حَسیں بنائے گا ،
بھول جاؤ ! ۔۔۔۔

چَراغ اندر چَراغ ۔۔۔ تم ہو
کتاب اندر کتاب ۔۔۔ تم ہو
سوال اندر سوال ۔۔۔ تم ہو
جواب اندر جواب ۔۔۔ تم ہو
خدا نے روزِ ازل
جو دیکھا تھا خواب ۔۔۔ تم ہو

تمہیں سے عزت ،
تمہیں سے نکہت ،
تمہیں سے شہرت ،
زمین کی ہے ۔۔۔۔۔

بچا سکو تو
اِسے بَچا لو

زمین والو ۔۔۔۔۔۔
زمین والو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!
 
Top