امیر مینائی زلفیں آئی ہیں لٹک کر روئے جاناں کی طرف - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
زلفیں آئی ہیں لٹک کر روئے جاناں کی طرف
پاؤں پھیلائے ہیں اس کافر نے قرآں کی طرف

گھر سے اُٹھے تھے کہ جائیں گے گلستاں کی طرف
وحشتِ دل لے چلی ہم کو بیاباں کی طرف

مِل کے اک اک گور سے ہم دیر تک رویا کیے
لے گئی عبرت جو کل گورغریباں کی طرف

کچھ تو تم کو چاہیے اپنے اسیروں کا خیال،
روز آنکلا کرو دم بھر کو زنداں کی طرف

آپ سے جاتا نہیں ہر بار، میں مجبور ہوں
دل کھنچا جاتا ہے میرا کوئے جاناں کی طرف

چاہتا ہوں وصل اُس سے جو دو عالم میں نہیں
مجھ کو دیکھو اور میرے دل کے ارماں کی طرف

اب کہیں یارانِ رفتہ کا نشاں ملتا نہیں
شوقِ دل لے چل مجھے گورِ غریباں کی طرف

جا کے اب یاروں کی تنہائی میں دیکھوں گا امیر
لے چلی ہے بیکسی گورِ غریباں کی طرف
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ ایک شعر میں نشان کی بجائے نشاں ہونا چاہیے اور نشاں کے نیچے اضافت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اسے درست کر دیجیے۔
اب کہیں یارانِ رفتہ کا نشانِ ملتا نہیں
شوقِ دل لے چل مجھے گورِ غریباں کی طرف
 
Top