زلزلے کیوں آتے ہیں

انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈرائونے خواب مسلط رہتے ہیں۔

معلوم تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ مالی نقصانات کا تو شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔
زلزلے کیوں آتے ہیں ............... ؟؟
آتش فشاں پہاڑ کیوں پھٹتے ہیں .............؟؟
اور دنیا کے کچھ حصّوں میں اس قسم کے واقعات زیادہ کیوں رونما ہوتے ہیں .............. ؟؟

سائنسی ریسرچ کے بعد حقائق کے انکشافات سے پہلے زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب روایات مروج تھیں ، مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں ......... بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں .......... قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویلِالقامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں .......... کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں ........... سائیبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے ............ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔

قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔

تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ''پلیٹ ٹیکٹونکس'' کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر ، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے Joint پر واقع ہیں۔

ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault پیدا ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زیرِزمین جو مقام میگما کے دبائو کا نشانہ بنتا ہے، اسے محور Focus اور اس کے عین اوپر کے مقام کو جہاں اس جھٹکے کے فوری اثرات پڑتے ہیں، زلزلے کا مرکز Epicentre کہا جاتا ہے۔

زلزلے کی لہریں پانی میں پتھر گرنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔ ان سے ہونے والی تباہی کا تعلق جھٹکوں کی ریکٹر اسکیل پر شدّت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہوتا ہے۔ اگر زلزلہ زمین کی تہہ میں آئے تو ا س سے پیدا ہونے والی بلند موجیں پوری رفتار کے ساتھ چاروں طرف چلتی ہیں اور ساحلی علاقوں میں سخت تباہی پھیلاتی ہیں۔

زلزلے دو قسم کے ہوتے ہیں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹیکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹیکٹونک Non Tectonic کہلاتے ہیں۔ ٹیکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہوسکتے ہیں۔ جبکہ نان ٹیکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہوسکتا ہے چنانچہ کسی خطے میں تو بہت زیادہ تباہی ہوجاتی ہے لیکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہیں۔

زلزلے کی لہریں 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیلتی ہیں۔ نرم مٹی اور ریت کے علاقے میں یہ نہایت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی شدّت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر زلزلہ پیما کے ریکارڈ سے لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدّت مرکلی اسکیل Mercally Intensity Scale سے ناپی جاتی ہے۔

زلزلے سمندر کی تہہ میں موجود زمینی سطح پر بھی پیدا ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر زلزلے سمندر کی تہہ میں ہی پیداہوتے ہیں۔ بحری زلزلوں یعنی سونامی سے سمندر میں وسیع لہریں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انمیں سے بعض تو ایک سو میل سے لے کر 200 میل تک کی لمبائی تک پھیل جاتی ہیں، جبکہ ان کی اونچائی 40 فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ لہریں ساحل پر پہنچتی ہیں تو ساحل سے گزر کر خشکی کی جانب سیلاب کی طرح داخل ہوجاتی ہیں اور بے پناہ تباہی و بربادی پھیلادیتی ہیں۔

دنیا کے وہ خطے جہاں زلزلے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر 3 پٹیوں Belts میں واقع ہیں۔ پہلی پٹی جو کہ مشرق کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ اور یوگوسلاویہ سے فرانس تک یعنی کوہ ایلپس تک پہنچ گئی ہے۔دوسری پٹی براعظم شمالی امریکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف Rocky mountains کو شامل کرتے ہوئے میکسیکو سے گزر کربراعظم جنوبی امریکہ کے مغربی حصّے میں واقع ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے ہوتی ہوئی چلّی تک پہنچ جاتی ہے۔جبکہ تیسری پٹی براعظم ایشیا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائیوان سے گزرتی ہوئی جنوب میں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشیاء اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتی ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ کچھ زلزلے فالٹس کی وجہ سے آتے ہیں۔ فالٹس دراصل Cracks ہوتے ہیں۔ جب اچانک یہ Crack بنتے ہیں تو بہت زیادہ انرجی خارج ہوتی ہے۔ اس انرجی کی وجہ سے چٹانوں کے بہت سارے بڑے بڑے بلاکس ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ زمین کے جس حصّہ میں یہ انرجی فوکس ہوکر زمین کی سطح پر خارج ہوتی ہے وہی زلزلہ کا Epicentre یعنی مرکز کہلاتا ہے۔ اگر یہ انرجی بہت زیادہ گہرائی میںخارج ہو تو زلزلے اتنی شدّت کے نہیں ہوتے کیونکہ سطح زمین تک پہنچتے پہنچتے ان کی بہت سی توانائی زائل ہوجاتی ہے۔ لیکن جب زلزلے کا مرکز Epicentre زمین کی سطح کے قریب بنتا ہے تو اس کی انرجی تقسیم نہیں ہوتی اسی بناء پر شدید تباہی پھیلتی ہے۔

زلزلہ کی انرجی یا لہروں کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک پرائمری ویوز اور دوسری سیکنڈری ویوز۔ سیکنڈری ویوز زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ان ویوز میں پارٹیکلز ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں۔ پارٹیکلز کی موومنٹ رائٹ اینگل ہوتی ہے اس کی وجہ سے عمارتیں گرجاتی ہیں کیونکہ یہ ویوز پارٹیکلز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

بڑے زلزلے کے بعد اس مقام پر مزید زلزلے آتے رہتے ہیں ، جیسا کہ زیارت کے زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے ۔ ان آفٹر شاکس کو سیکنڈری ارتھ کوئیک بھی کہتے ہیں۔ دراصل جب شدید زلزلہ آتا ہے تو زمین کے اندر چٹانوں کے بڑے بلاکس بکھر جاتے ہیں۔ ان بے ترتیب بلاکس کی سطح برابر کرنے کے لئے سیکنڈری زلزلے آتے ہیں۔

جغرافیہ کے سائنسدانوں نے زمین کے کچھ حصّوں کو Zone of Subduction کا نام دیا ہے، جہاں زلزلہ کے زیادہ خطرات موجود رہتے ہیں۔ مثلاً بحر الکاہل Pacific Ocean کے چاروں طرف موجوز زون کو Firy Ring of Pacific کہتے ہیں۔ اس زون میں دو پلیٹیں جب آپس میں ملتی ہیں تو کوئی ایک دبائو کی وجہ سے نیچے چلی جاتی ہے۔ نیچے بہت زیادہ درجہ حرارت اور کیمیکل ری ایکشن کی وجہ سے وہ پلیٹ پگھل جاتی ہے۔ اس سے بننے والی انرجی والکینو یا آتش فشاں کی صورت میں نکلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Firy Ring of Pacific میں جو ممالک ہیں مثلاً الاسکا، سائوتھ امریکہ میں انڈیز کا حصّہ، انڈونیشیا، چائنہ اور جاپان وغیرہ میں، وہاں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔

اس کے علاوہ خشکی میں زلزلہ والے علاقوں میں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ بھی اہم ہے۔ یہ حصّہ یوریشین اور آسٹرل انڈین پلیٹ پر واقع ہے۔ اس کے ٹکرائو کی وجہ سے Zone Of Conversion بنتا ہے یعنی جغرافیائی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ یاد رہے ہمالیہ کسی زمانے میں سمندر میں تھا۔ ہزاروں سال جاری رہنے والے تغیر وتبدل کی بناء پر ان پلیٹوں کی رگڑ سے یہ خطہ اونچا ہوتا گیا۔ خشکی اور پانی کے خطے ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یہ ایک طویل جیولوجیکل پروسس ہے جو ہزاروں سال سے جاری ہے ، آئندہ بھی سمندر سے نئے لینڈز اُبھریں گے اور جو علاقے Subduction Zones سے گھرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک وقت آئے گا کہ سمندر بُرد ہوجائیں گے۔

بحر اوقیانوس Atlantic Ocean میں بھی ایک ایسا ہی زون موجود ہے جس کی سطح آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ یہ حصّہ گرین لینڈ سے نارتھ اٹلانٹک تک آتا ہے اس لئے اسے نارتھ اٹلانٹک Ridge یا شمالی اوقیانوس کا اُبھار کہا جاتا ہے۔ جب یہ سطح سمندر سے باہر آجائے گی تو ظاہر ہے وہاں ایک نیا لینڈ بن جائے گا۔
پاکستان کے کچھ شہر اور علاقے زلزلہ کے فالٹس پر یا اس کے قریب ہی واقع ہیں ........ وہاں لاکھوں انسان آباد ہیں ........ایسے شہر یا علاقے جو فالٹس کے نزدیک موجود ہیں وہاں کے لوگ زلزلہ سے بچائو کے لئے حفاظتی اقدامات کے طور پر کیا کریں؟.....
ہمارے خیال میں انسان کو اپنی زمین سے ، جہاں وہ بستا ہے ، قدرتی طور پر ایک قلبی وابستگی ہوجاتی ہے اور جیوگرافی کی سائنس بھی اپنی زمین سے اس انسانی وابستگیکو تسلیم کرتی ہے............
یہ نہیں ہوسکتا کہ زلزلہ کے خوف سے کوئی اپنا خطّہ چھوڑ دے .........
جاپان میں سب سے زیادہ زلزلہ آتے ہیں ! ...........کہا جاتا ہے کہ جاپان میں روزانہ کئی زلزلے آتے ہیں لیکن جاپان کے لوگ اپنے ملک میں ہی رہتے ہیں ....... جاپانیوں نے زلزلے سے خوف کھانے کے بجائے خود کو زلزلوں کی تباہی سے محفوظ رکھنے کے لئے سائنسی اصولوں کے مطابق آبادیاں بسائی ہیں ، جاپان کے شہروں میں کئی کئی منزلہ سڑکیں اور کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور یہ تمام تعمیرات زلزلہ سے بچائو کے سائنسی اصولوںکو مدِنظر رکھ بنائی گئی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اکتوبر 2005 ء اور اکتوبر 2008 ء کے زلزلوں کی تباہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنسی اصولوں کے مطابق تعمیرات کی ضرورت کو اب محسوس کرنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے
ربط
http://www.alqamar.info/alqamarnews/news/127/ARTICLE/25960/2008-11-13.html
 
Top