شکیب جلالی زباں کاٹ دے اور ہونٹوں کو سی لے - شکیب جلالی

زباں کاٹ دے اور ہونٹوں کو سی لے
بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے

حوادث کی زد میں بڑے جا رہے ہیں
مری آرزوؤں کے نازک قبیلے

وہ ساتھی جسے غم سے نسبت نہیں ہے
الم کو کریدے نہ زخموں کو چھیلے

غرور و محبت میں تفریق دیکھو
یہ سونے کی وادی یہ مٹی کے ٹیلے

ہمیں دل کی ہر بات سچ سچ بتا دو
بناؤ نہ باتیں ، تراشو نہ حیلے

نہ چھیڑو ، پرانے فسانے نہ چھیڑو
لہو ہی بہے گا اگر زخم چھیلے​
شکیبؔ جلالی
ستمبر 1953ء
 
Top