کاشفی

محفلین
غزل
(حامد اقبال صدیقی، ممبئی)
زباں، اظہار، لہجہ بھول جاؤں
مرے معبود کیا کیا بھول جاؤں

بکھر جاؤں زمیں سے آسماں تک
پھر ایسا ہو، سمٹنا بھول جاؤں

میں تیرا نام اتنی بار لکھوں
کہ اپنا نام لکھنا بھول جاؤں

تری پرچھائیں تو لے آؤں گھر تک
کہیں اپنا ہی سایہ بھول جاؤں

تری آواز تو پہچان لوں گا
یہ ممکن ہے کہ چہرہ بھول جاؤں

کبھی یہ بھی تو ہو، بھٹکوں جہاں میں
اور اپنے گھر کا رستہ بھول جاؤں

جنونِ بندگی کی لاج رکھنا
اگر آدابِ سجدہ بھول جاؤں

میں کب تک سوچتا رہتا جہاں کو
یہی بہتر تھا، جینا بھول جاؤں
 
Top