ناسخ رہے کیونکر نہ دل ہر دم نشانہ ناوکِ غم کا - امام بخش ناسخ

حسان خان

لائبریرین
رہے کیونکر نہ دل ہر دم نشانہ ناوکِ غم کا
کہ ہے میرا تولد ہفتمِ ماہِ محرم کا
گیا جو اُس کے کوچے میں وہ با چشمِ پُرآب آیا
حرم سے جس طرح لاتے ہیں زائر آب زمزم کا
سلیمانی ہے زیبا اُس پری کو ملکِ خوبی میں
تبسم نقشِ خاتم ہے دہن حلقہ ہے خاتم کا
جواب اُس نے نہ بھیجا اور ہم نے خط لکھے اتنے
کہ مہریں کرتے کرتے مٹ گیا نقش اپنے خاتم کا
نظر آتا نہیں جب سے کسی کا کعبۂ ابرو
ہمارے دیدۂ تر میں ہے عالم چاہِ زمزم کا
جلا کرتا ہوں میں دن رات لیکن مر نہیں جاتا
اثر سوزِ غمِ فرقت میں ہے نارِ جہنم کا
نہیں ہے معتقد میرا اگر حاسد تو کیا غم ہے
ہوا بے سجدۂ ابلیس کیا نقصان آدم کا
کسی دل تک رسائی ہو سکے تو عرش ہے یہ بھی
عزیزو گر نہیں معراج ممکن عرشِ اعظم کا
برنگِ گُل جگر ہوتا ہے ٹکڑے سیرِ گلشن میں
ہوا ہے تیغِ غم بے یار نظارہ سپرغم کا
رسائی میرے اوجِ فکر تک ہو گی نہ حاسد کو
غرور آگے مرے کرتا ہے کیا تحصیلِ سُلّم کا
پری زادوں نے منہ اپنا چھپایا مارے غیرت کے
اِسے سوچو ذرا کیا حُسن ہے اولادِ آدم کا
ازل سے جو کہ باہم ہیں جدا ہوتے ہیں دنیا میں
دلیل اس پر جدا ہونا ہے یاں طفلانِ توأم کا
حماقت ہے غرورِ جاہ اہلِ فقر کے آگے
یہ تاج و تخت ہے رد کردہ ابراہیمِ ادہم کا
سخاوت جس کو کہتے ہیں کہانی ہے زمانے میں
بخیلوں کی بدولت رہ گیا ہے نام حاتم کا
مری آنکھوں میں پڑ جائیں نہ کیونکر اس قدر حلقے
تصور رات دن رہتا ہے مجھ کو زلفِ پُرخم کا
میں ایسا پاکدامن ہوں یقیں ہے بعدِ مردن بھی
بجائے سبزہ تربت پر اُگے گا پنجہ مریم کا
مسی آلودہ لب کو تو نے جس کپڑے سے پوچھا ہے
وہ میرے زخمِ دل کے واسطے پھاہا ہے مرہم کا
تماشائے جہاں ہم دیکھتے ہیں کنجِ غربت میں
ہمارے بوریے کا نقش خط ہے ساغرِ جم کا
گذر ناگاہ جو میرا ہوا شہرِ خموشاں میں
عجب نقشہ نظر آیا وہاں شاہانِ عالم کا
کہیں آئینۂ زانو سکندر کا شکستہ تھا
کسی جانب پڑا تھا کاسۂ سر خاک میں جم کا
محب ہیں سایۂ رہ اور عدو ہیں خارِ رہ ناسخ
مسافر وادیِ امکاں میں ہوں گویا کوئی دم کا
(امام بخش ناسخ)
سپرغم = پھول، ریحان
سُلّم= سیڑھی
توأم = جڑواں
 

طارق شاہ

محفلین
جلا کرتا ہوں میں دن رات لیکن مر نہیں جاتا
اثر سوزِ غمِ فرقت میں ہے نارِ جہنم کا
نہیں ہے معتقد میرا اگر حاسد، تو کیا غم ہے!
ہُوا بے سجدۂ ابلیس کیا نقصان آدم کا
پری زادوں نے منہ اپنا چھپایا مارے غیرت کے
اِسے سوچو ذرا کیا حُسن ہے اولادِ آدم کا
سخاوت جس کو کہتے ہیں کہانی ہے زمانے میں
بَخِیلوں کی بدولت رہ گیا ہے نام حاتم کا
بہت خُوب اِنتخاب !
بالا اشعار متاثر کُن رہے
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 
رہے کیونکر نہ دل ہر دم نشانہ ناوکِ غم کا
کہ ہے میرا تولد ہفتمِ ماہِ محرم کا

گیا جو اُس کے کوچے میں وہ با چشمِ پُرآب آیا
حرم سے جس طرح لاتے ہیں زائر آب زمزم کا

سلیمانی ہے زیبا اُس پری کو ملکِ خوبی میں
تبسم نقشِ خاتم ہے دہن حلقہ ہے خاتم کا

جواب اُس نے نہ بھیجا اور ہم نے خط لکھے اتنے
کہ مہریں کرتے کرتے مٹ گیا نقش اپنے خاتم کا

نظر آتا نہیں جب سے کسی کا کعبۂ ابرو
ہمارے دیدۂ تر میں ہے عالم چاہِ زمزم کا

جلا کرتا ہوں میں دن رات لیکن مر نہیں جاتا
اثر سوزِ غمِ فرقت میں ہے نارِ جہنم کا

نہیں ہے معتقد میرا اگر حاسد تو کیا غم ہے
ہوا بے سجدۂ ابلیس کیا نقصان آدم کا

کسی دل تک رسائی ہو سکے تو عرش ہے یہ بھی
عزیزو گر نہیں معراج ممکن عرشِ اعظم کا

برنگِ گُل جگر ہوتا ہے ٹکڑے سیرِ گلشن میں
ہوا ہے تیغِ غم بے یار نظارہ سپرغم کا

رسائی میرے اوجِ فکر تک ہو گی نہ حاسد کو
غرور آگے مرے کرتا ہے کیا تحصیلِ سُلّم کا

پری زادوں نے منہ اپنا چھپایا مارے غیرت کے
اِسے سوچو ذرا کیا حُسن ہے اولادِ آدم کا

ازل سے جو کہ باہم ہیں جدا ہوتے ہیں دنیا میں
دلیل اس پر جدا ہونا ہے یاں طفلانِ توأم کا

حماقت ہے غرورِ جاہ اہلِ فقر کے آگے
یہ تاج و تخت ہے رد کردہ ابراہیمِ ادہم کا

سخاوت جس کو کہتے ہیں کہانی ہے زمانے میں
بخیلوں کی بدولت رہ گیا ہے نام حاتم کا

مری آنکھوں میں پڑ جائیں نہ کیونکر اس قدر حلقے
تصور رات دن رہتا ہے مجھ کو زلفِ پُرخم کا

میں ایسا پاکدامن ہوں یقیں ہے بعدِ مردن بھی
بجائے سبزہ تربت پر اُگے گا پنجہ مریم کا

مسی آلودہ لب کو تو نے جس کپڑے سے پوچھا ہے
وہ میرے زخمِ دل کے واسطے پھاہا ہے مرہم کا

تماشائے جہاں ہم دیکھتے ہیں کنجِ غربت میں
ہمارے بوریے کا نقش خط ہے ساغرِ جم کا

گذر ناگاہ جو میرا ہوا شہرِ خموشاں میں
عجب نقشہ نظر آیا وہاں شاہانِ عالم کا

کہیں آئینۂ زانو سکندر کا شکستہ تھا
کسی جانب پڑا تھا کاسۂ سر خاک میں جم کا

محب ہیں سایۂ رہ اور عدو ہیں خارِ رہ ناسخ
مسافر وادیِ امکاں میں ہوں گویا کوئی دم کا​
 
Top