داغ رگِ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تُو

دل جان

محفلین
رگِ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تُو
مگر پھر جو دیکھا کہاں میں کہاں تُو

حقیقت میں ہے ماسویٰ چیز ہی کیا؟
اِدھر تو اُدھر تو یہاں تو وہاں تُو

نہ تو مجھ کو چھوڑے نہ میں تجھ کو چھوڑوں
وہیں تو جہاں میں ، وہیں میں جہاں تُو

حفیظ اور حافظ بھی ہے نام تیرا
نگہبان ہے اور ہے پاسباں تُو

وظیفہ جو تجھ کو نہیں نام اُس کا
دہن میں ہے کِس کام کی اَے زباں تُو

جہاں پائیں گے تجھ کو ہی پائیں گے ہم
نہیں بے نشاں تُو، نہیں بے نشاں تُو

یہ گھر وہ بنے جس پہ قرباں ہو جنت
اگر خانہء دل میں ہو مہماں تُو

کہاں چشمِ بینا ہے ایسی جو دیکھے
کہاں ہے عیاں تو کہاں ہے نہاں تُو

یہاں پست و بالا دکھانا تھا تجھ کو
بناتا نہ کیوں یہ زمیں آسماں تُو

نکلتے ہی کہتا ہے غنچہ زباں سے
کہ اِس باغِ عالم کا ہے باغباں تُو

نہ ہو دین و دنیا میں کچھ رنج اُس کو
الہٰی رہے داغ پر مہرباں تُو

داغ دہلوی
 
Top