-----×××----- بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال ایّامِ جوانی رہے ساغرِکُش حال آپہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال -----×××-----
-----×××----- شبِ زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُرنَم تھا -----×××-----
۔آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال ہے سوزِجگر کا بھی اسی طور کا حال تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال ! ۔
۔دل تھا ، کہ جو جان دردِ تمہید سہی بیتابئ رشک و حسرت دید سہی ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس تکرار روا نہیں تو تجدید سہی ۔
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لئے وحشت کدہ تلاش لڑنے کے لئے یعنی ہر بار صُورتِ کاغذ باد * ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے ----------------------------------------------------------------------------- * : نسخۂ طباطبائی میں یہ مصرعہ یوں درج ہے یعنی ہر بار کاغذِ باد کی طرح
دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا اُس سے گِلہ مند ہوگیا ہے گویا پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں غالب منہ بند ہوگیا ہے گویا
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش گویم مشکل و گر نگویم مشکل
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال ہے لُطف و عنایات ِ شہنشاہِ پہ دال یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم آثارِ جلالی و جمالی باہم ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم ہے اب کے شبِ قدر و دوالی باہم
دکھ * جی کے پسند ہوگیا ہے غالب دل رُک رُک کر بند ہوگیا ہے غالب واللہ کہ شب کو نیند ہی آتی نہیں سونا سَوگند ہوگیا ہے غالب -------------------------------------------------------------------- * :
(دوبارہ) دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالب دل رُک رُک کر* بند ہوگیا ہے غالب واللہ کہ شب کو نیند ہی آتی نہیں سونا سَوگند ہوگیا ہے غالب ----------------------------------------------------------------------- * : اس رُباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے ۔ یہ بظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا تھا ، اُس کے بعد مختلف حضرات اس پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انھوں نے رُک رُک کر کے بجائے صرف رُک کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ اس اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکل گئی ہے ۔ دل رُک کر بند ہوگیا تو ایسا ہی مُہمل ہے جیسا دل رُک کر رُک گیا یا دل بند ہو کر بند ہوگیا ۔ غالب نے دل رک رک کر کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کے بند ہوجانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعا بے کیف رہ جاتا ہے ۔ عروض خواہ کچھ کہے رُک کر کو رُ ک رُک کر کی جگہ نہیں دی جاسکتی ۔
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ ہے صفر کہ افزائشِ اعداد کرے
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا ہر سینکڑے کو ایک گرہ فرض کریں ایسی گرہیں ھزار ہوں ، بلکہ سِوا
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُمِ آزار نہیں عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں !
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ! وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے !
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟ آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟ روزہ مِرا اِیمان ہے غالب ! لیکن خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے
رقعہ کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے ثاقب حرکت یہ کیا کہ ہے بے جا تم نے حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب غالب کا پکا دیا کلیجہ تم نے
اے روشنئ دیدہ شہابُ الدین خاں کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رمضان؟ ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک؟ سنتے ہو تراویح میں کتنا قرآن؟