اقبال رُباعیاتِ اقبال

زونی

محفلین
رُباعیاتِ اقبال





تیرے سینے میں دم نہیں ھے
ترا دم گرمیءمحفل نہیں ھے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ھے منزل نہیں ھے
 

زونی

محفلین


ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!
 

زونی

محفلین

مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں؟
جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں​
 

زونی

محفلین
وہ میرا رونقِ محفل کہاں ھے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ھے
مقام اس کا ھے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقامِ دل کہاں ھے​
 

زونی

محفلین
زمانے کی یہ گردش جاودانہ
حقیقت ایک تو، باقی فسانہ
کسی نے دوش دیکھا ھے نہ فردا
فقط امروز ھے تیرا زمانہ!​
 

زونی

محفلین
خرد واقف نہیں ھے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ھے ظالم اپنی حد سے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ھے
خرد بیزار دل سے ، دل خرد سے​
 

زونی

محفلین
وہی اصلِ مکان و لامکاں ھے
مکاں کیا شے ھے ؟ اندازِ بیاں ھے
خضر کیوں کر بتائے ، کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ھے​
 

زونی

محفلین
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق!
کبھی سوزو سرور و انجمن عشق!
کبھی سرمایہءمحراب و منبر!
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق!​
 

زونی

محفلین
کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
کبھی شاہِ نوشیرواں عشق
کبھی میداں میں آتا ھے زرہ پوش
کبھی عریاں و بے تیغ و سناں عشق​
 

زونی

محفلین


یہ نکتہ میں نے سیکھا ابوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے​
 

زونی

محفلین

یہی آدم ھے سلطاں بحر و بر کا ؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہ کار ھے تیرے ہنر کا؟​
 

زونی

محفلین
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ھے!
اسی سے ریشہء معنی میں نم ھے
اگر کوئی شعیب آئے میسّر
شبانی سے کلیمی دو قدم ھے​
 

زونی

محفلین
کھلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
گیا دورِ حدیثِ لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی ، وہی آخر زمانی!​
 

زونی

محفلین
حکیمی نا مسلمانی خودی کی
کلیمی رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی​
 

زونی

محفلین
ترا تن روح سے نا آشنا ھے
عجب کیا آہ تیری نا رسا ھے
تنِ بے روح سے بیزار ھے حق!
خدائے زندہ زندوں کا خدا ھے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ھے!
اسی سے ریشہء معنی میں نم ھے
اگر کوئی شعیب آئے میسّر
شبانی سے کلیمی دو قدم ھے​

جب بھی میں یہ رباعی پڑھتا ہوں مجھے اپنے ایک مرحوم استاد "کرم حسین معصوم" یاد آجاتے ہیں۔ موصوف کارپوریشن سکول کے پرائمری ٹیچر تھے لیکن فارسی، اردو اور انگریزی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ہی اقبال کا اردو کلام مجھے اور فارسی کلام والد صاحب کو سمجھایا تھا۔
 
Top