روشن خیالی سے انتہا پسندی کم نہ ہوگی!

امکانات

محفلین
روشن خیالی سے انتہا پسندی کم نہ ہوگی!

زبیرا حمد ظہیر

انتہا پسندی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟یہ سوال اس وقت پاکستان کی حکمران قیادت سے لے کرامریکہ کے صدراوبامہ تک پوری دنیا کا درد سر بنا ہوا ہے ۔ انتہا پسندی میں اضافہ کیسے ہوتا ہے اس سوال کا جواب کوئی تلاش نہیں کرتا نہ اس کے اسباب کی طرف کسی کا دھیان جاتا ہے ۔امریکہ سمیت ہماری حکمران قیادت نے انتہا پسندی کا توڑ روشن خیالی کو سمجھ لیا ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ روشن خیالی لانے کی کوششوںنے انتہا پسندی میں کمی کی بجائے اضافہ کردیاہے ۔

دور جانے کی ضرورت نہیں ہم سابق صدر مشرف کے دور حکومت کو بطور مثال لیتے ہیں موصوف نے آتے ہی روشن خیالی کا نعرہ دیا اور کتے کے پلے کو گلے لگا کر اس کی بنیاد ڈال دی مشرف1999 میں اقتدار پر قابض ہوتے ہیں اور2008ء میں زبردستی سبکدوش کیے جاتے ہیں ان نوبرسوں میں پاکستان میں انہوں نے ایڑی چوڑی کا زور لگایا اور روشن خیالی کی مکمل سرپرستی کی، اس جہدوجہدمیں انہوں نے روشن خیالی میں انتہا پسندی تک کر ڈالی۔ جہادی کلچر ختم کیا ،دینی مدارس کا گلہ گھونٹنے کی پوری کوشش کر ڈالی، دینی مدارس کے غیر ملکی طلبہ کے داخلوں میں بھاری رکاوٹیں کھڑی کر دیں ،لاؤڈ اسپیکر پر پابندی عائد کی' داڑھی کو گالی بنا ڈالا مذہبی ہونا برائی تک بن گیا دوسری جانب انہوں نے روشن خیالی کو پاکستانی معاشرے میں رواج دیا نوجوان بچیوں کی دوڑیں لگوائیں ۔خواتین کو اسمبلی میں سب سے زیادہ نمایندگی دی خواتین کے لیے سرکاری اداروں اور مشقت کے کاموں میں ملازمت کے دروازے کھول دیئے انہیں انتہائی اہم عہدوں پر ملازمتیں دیں مشرف دور سے قبل ویلنٹائن ڈے ،نیوائر نائٹ ،بسنت اور میراتھن کا کوئی راواج نہیں تھا یہ بدعات آج رواج بن گئی ہیںالغرض مشرف جو کچھ کرسکتے تھے وہ انہوں نے کیا مگر حقیقی معنوں میں انتہا پسندی گئی اورنہ ان کی خواہش کے مطابق روشن خیالی آسکی۔

زمینی حقائق اس کے الٹ ثابت ہوئے اور اس کوشش سے معاشرہ دو انتہاؤں کی جانب نکل گیا ۔ایک جانب روشن خیالی میںمعاشرہ اتنا آگے نکل گیا کہ مغرب تک پاکستانیوں کی آزاد خیالی پر حیران ہے اور دوسری جانب قدامت پسندی اور مشرقی روایات کا سہارا لے کر معاشرے کادوسرا حصہ اتنا پیچھے چلا گیا کہ گمان نہیں ہوتا ہم اکیسوی صدی میں جی رہے ہیں ۔

جس تیزی سے روشن خیالی آزادی خیالی میں بدلی اتنی ہی تیزی سے مذہب پسندی میں اضافہ ہوا آج صورت حال یہ ہے کہ کوئی بازار کوئی مقام ایسا نہیں ہوگا جہاں دس خواتین میں ایک آدھ برقعہ پوش نہ ہو،کاروباری مندی کے اس دور میں برقعے کے لیے استعمال ہونے والے کپڑے کی مانگ میں مہنگائی کے باوجود دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ عام معاشرے میں جس تیزی سے خواتین کے کپڑے تنگ اور مختصر ہو رہے ہیں اس تیزی سے ہی خواتین کے ایک طبقے میں پورے جسم کو ڈھانپنے کے رواج میں اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشر ے میں جس تیزی سے روشن خیالی میں اضافہ ہوا ہے اس تیزی سے طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے یہ سب کچھ مشرف دور کا یادگار تحفہ ہے1999 ء تک پچھلے دس سالوں میںپاکستان میں خواتین کے دینی مدارس کی تعداد اتنی کم تھی کہ انہیں باآسانی انگلی کے پوروں پر گنا جاسکتا تھا آج آزاد کشمیر اوشمالی علاقہ جات سمیت ملک بھر کے چھوٹے بڑے30ہزارمدارس میںخواتین کے چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد8ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ مشرف دور سے قبل پاکستان میں خواتین کے مدارس کے حوالے سے مذہبی طبقہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا اور مشرف دور سے قبل خواتین مدارس کی مخالفت کرنے والوں کے دلائل وزنی معلوم ہوتے تھے مگر مشرف دور کی روشن خیالی نے خواتین مدارس کے خلاف دلائل کو کمزور کر دیا اور خواتین کے دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔حیران کن امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے خواتین کے تمام مدارس میں تعلیم پانے والی طالبات میںگریجویٹ اور ماسٹرز طالبات کی تعداد زیادہ ہے ' بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد طالبات نے دینی مدارس کا رخ کرنا شروع کردیاہے اور د ینی مدارس کی ہائر ایجویکشن میںگریجوٹ طالبات کے داخلوں کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ دینی مدارس کے بارے میں یہ بہت ہی عام تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ خواتین کی تعلیم کے مخالف ہیں جب حقیقت اس کے برخلاف نظر آتی ہے دینی مدارس کا سب سے بڑا امتحانی بورڈ وفاق المدارس کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے سالانہ امتحان میں شریک طالبات کی تعداد طلبہ کے مقابلے میںکئی برسوں سے کہیں زیادہ ہونے لگی ہے ۔2006ء وفاق المدارس کے سالانہ امتحان میں اس کے درس نظامی کے تحت کل 53ہزار6سو 20طلبہ اور 56ہزار 8سو99طالبات نے امتحان دیا اس سال مجموعی طورساڑے3ہزارطالبات کی تعداد طلبہ کے مقابلے میں زیادہ رہی 2007ء میںدرس نظامی کے امتحان میں کل 58ہزار7سو81 طلبہ اور 65ہزار71طالبات نے شرکت کی،یوں اس سال طالبات کی تعداد طلبہ کے مقابلے میں 6ہزارزیادہ رہی2008ء کے سالانہ امتحان میں61ہزار ایک سو80طلبہ نے شرکت کی اور 67ہزار8سو55 طالبات نے حصہ لیااس سال 6ہزار7سو75طالبات کی تعدادطلبہ کے مقابلے میں زیادہ رہی۔پاکستان کے دوسرے بڑے امتحانی بورڈ تنظیم المدارس کے تحت بھی خواتین طالبات کی تعداد میں یوں ہی اضافہ ہواہے ۔اس طرح حج اور عمرے کا معاملے ہے ۔

پاکستان میں حج اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے او راسکے اخراجات ایک لاکھ بیس ہزار سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیںاس کے باوجود حج فلائٹ لیٹ ہونے پر لوگ ائیر پورٹ پر یوں دھاڑیں مار کر رونے لگتے ہیں جیسے ان کی فلائٹ لیٹ ہوئی نہ مس ہوئی ہو بلکہ ان کا کوئی قریبی عزیز فوت ہو گیا ہو حج پر جانے کے لیے اتنی سفارشیں آتی ہیں کہ 5ہزار کے پارلیمانی کوٹے کے باوجود سفارشوں کے لیے صدر اور وزیر اعظم تک کی میزوں پر درخواستوں کی لائن لگ جاتی ہے ۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے حج ادا کیا ہے حج انتظامات کے لئے سعودی عرب کی کڑی شرائط اور نادرا کی تصدیق سے لیکر ائر پورٹ اسکینگ کے ایک طویل نظام تک سب کچھ لوگ گوارہ کرلیتے ہیں عازمین کے ساتھ حکومت اور حج ٹورآپریٹر کے نارواسلوک تک صدموں بھری ایک طویل کہانی تک ہر سال حج درخوستوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے مشرف دور میں سابق وفاقی وزیراعجاز الحق سابق سیکرٹری مذہبی امور وکیل احمد خان اور سابق جوائنٹ سکیرٹری اے آرعابد کی کوششوں سے پاکستان کے حج کوٹہ میں40ہزار کا اضافہ ہوا دلچسپ امر ہے کہ 40ہزر کا یہ حج کوٹہ مشرف کے روشن خیال دور میں پاکستان نے حاصل کیا تب جا کر پہلی بار ایک لاکھ ساٹھ ہزار عازمین نے فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کی ۔

سعودی عرب کی جانب سے 40سال سے کم عمر کے بغیر خاندان کے اکیلے عازم پر پابندی کے باوجود ہر سال عمرہ عازمین کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کو تجاوز کر جاتی ہے عمرہ عازمین کی یہ تعداد بھی پاکستان میں پہلی بار بڑھنے لگی ہے کیا یہ سب انتہا پسندی ہے اگر یہ سب انتہا پسندی ہے توبرقعے کے بڑھتے ہوئے رواج ،جسم ڈھانپے کے رجحان سے لے کر خواتین کے دینی مدارس میں دلچسپی سے ہوکر حج و عمرہ تک اس سارے شوق میں اضافہ مشرف دور سے ہوا ہے اگر یہ سب انتہا پسندی ہے تو ماننا پڑے گا اس مذہب پسندی نے روشن خیالی کی انتہاپسندی سے جنم لیا ہے انتہاپسندی روشن خیالی سے ختم نہیں ہوگی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگایہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکاسے پاکستان تک جن لوگوں نے انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے روشن خیال کو رواج دیا انہوںنے کمی کی بجائے اس میں اضافہ کرانے کے سواء کچھ نہیں کیاجب روشن خیالی میں انتہاپسندی کی جاتی ہے اور مذہبی انتہاپسندی کی آڑ میں مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے تو یہ کام جلتی پر تیل ڈالنے کاکام کرتاہے اورکسی عام فرد کو بھی انتہاپسندبنانے میں دیر نہیں لگاتا۔مذہب مقدس ہوا کرتے ہیں ان سے عقیدت اندھی ہوا کرتی ہے دنیا کا کوئی اہل مذہب عقیدت اور تقدس پر تنقید برداشت نہیں کرتا۔ جو بھی کہہ لیں روشن خیالی کی انتہاپسندی سے مذہبی انتہاپسندی ختم نہیں کی جاسکتی۔
 
Top