فیض رقیب سے- فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
رقیب سے

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

بہت ہی خوب

یہ فیض کا کلام آپ کو اتنا پسند کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی پنکھی (فین) تو صرف ٹینا ثانی ہی ہے۔

یہ فیض کا کلام آپ کو اتنا پسند کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی پنکھی (فین) تو صرف ٹینا ثانی ہی ہے۔

بہت شکریہ شمشاد صاحب مجھے نہیں معلوم آپ مجھ سے مخاطب ہیں یا کس سے - اور بہت شکریہ زونی صاحبہ! رقیب سے اسطرح کا اندازِ تخاطب اور اہمیت بہت کم شعرا میں نظر آتی ہے - فیض کے علاوہ صرف غالب یا پھر عدم کے یہاں - اور کسی شاعر نے میرا نہیں خیال کہ ایسا استعمال کیا ہو -
دو ہی باذوق آدمی ہیں عدم
میں ہوا یا میرا رقیب ہوا
(عدم)

معذرت چاہتا ہوں سخنور صاحب کہ واضح الفاظ میں نہ لکھا اور غلط فہمی ہو گئی، وہ اصل میں میں زونی سے مخاطب تھا۔

یہ فیض کا کلام آپ کو اتنا پسند کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی پنکھی (فین) تو صرف ٹینا ثانی ہی ہے۔


شمشاد بھائی مجھے تو ہر نفیس شے پسند ھے،ویسے فیض کا کلام اپنی انفرادیت رکھتا ھے وہ ایک حساس شاعر تھے اور ان کی شاعری معاشرتی تلخیوں کی عکاس بھی ھے،،ٹینا ثانی فیض کی فین ہی نہیں انہوں نے فیض کی نظموں کو بہت خوبصرتی سے گایا ھے اور تقریباً ساری ہی میری پسندیدہ ہیں،:)

بہت خوب۔ واقعی فیض اپنی طرز کے بہت ہی اچھے شاعر تھے۔

میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک۔ ۔ ۔ عجیب سی اداسی اور کسک کی کیفیت ہے اس میں جسے شائد اس سے بہتر بیان نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ۔ ۔
رقیب سے

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں​

بہت عمدہ کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تونے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے
تجھ پہ اٹحی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنوائوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھانہ سکوں

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سوجاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

فیض احمد فیض
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے​
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا​
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے​
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر​
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے​
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے​
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر​
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے​
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے​
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ​
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے​
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں​
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے​
 
Top